تحریر : راشد علی بچے بنی نوع انسان کی نسلِ نو ہیں۔ دیگر اَفرادِ معاشرہ کی طرح بچوں کا بھی ایک اَخلاقی مقام اور معاشرتی درجہ ہے۔ بہت سے ایسے اُمور ہیں جن میں بہ طور بنی نوع انسان بچوں کو بھی تحفظ درکار ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ یہ اَمر بھی قابل غور ہے کہ چوں کہ بچے بالغ نہیں لہٰذا بہت سی ایسی ذمہ داریاں جن کے بالغ لوگ مکلف ہیں، بچے ان کے مکلف نہیں ہو سکتے۔ گو انہیں کئی حقوق مثلاً رائے دہی، قیام خاندان اور ملازمت وغیرہ حاصل نہیں مگر اپنی عمر کے جس حصے میں بچے ہوتے ہیں اس میں انہیں اس تربیت اور نگرانی کی ضرورت ہوتی ہے کہ مستقبل میں وہ ان حقوق کی ادائیگی کما حقہ کر سکیں۔ یہ اَمر ہی بچوں کے حقوق کی نوعیت کا تعین کرتا ہے۔ دورِ جدید میں بچوں کے حقوق کا تحفط کرنے والی نمایاں دستاویز United Nations Convention on the Rights of the Child-1980 ہے۔ جس میں بچوں کے بنیادی انسانی حقوق کا ذکر کیا گیا ہے اسلام نے بچوں کو بھی وہی مقام دیا ہے جو بنی نوع انسانیت کے دیگر طبقات کو حاصل ہے۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بچوں کے ساتھ جو شفقت اور محبت پر مبنی سلوک اختیار فرمایا وہ معاشرے میں بچوں کے مقام و مرتبہ کا عکاس بھی ہے اور ہمارے لیے راہِ عمل بھی۔ اسلام میں بچوں کے حقوق کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے ہوتا ہے کہ اسلام نے بچوں کے حقوق کا آغاز ان کی پیدائش سے بھی پہلے کیا ہے۔ ان حقوق میں زندگی، وراثت، وصیت، وقف اور نفقہ کے حقوق شامل ہیں۔ بچوں کے حقوق کا اتنا جامع احاطہ کہ ان کی پیدائش سے بھی پہلے ان کے حقوق کی ضمانت فراہم کی گئی ہے دنیا کے کسی نظامِ قانون میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔جناب علی بن ابی طالب سے مروی ہے کہ جب فاطمہ کے ہاں حسن کی ولادت ہوئی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا : مجھے میرا بیٹا دکھاؤ، اس کا نام کیا رکھا ہے؟ میں نے عرض کیا : میں نے اس کا نام حرب رکھا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : نہیں بلکہ وہ حسن ہے۔ پھر جب حسین کی ولادت ہوئی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا : مجھے میرا بیٹا دکھاؤ، تم نے اس کا نام کیا رکھا ہے؟ میں نے عرض کیا : میں نے اس کا نام حرب رکھا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : نہیں بلکہ وہ حسین ہے۔ پھر جب تیسرا بیٹا پیدا ہوا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا : مجھے میرا بیٹا دکھاؤ، تم نے اس کا نام کیا رکھا ہے؟ میں نے عرض کیا : میں نے اس کا نام حرب رکھا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : نہیں بلکہ اس کا نام محسن ہے۔ پھر ارشاد فرمایا : میں نے ان کے نام ہارون (علیہ السلام) کے بیٹوں شبر، شبیر اور مشبر کے نام پر رکھے ہیں،ایک دوسری روایت میں ہے کہ ایک شخص حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوکر عرض گزار ہوایا رسول اﷲمیرے اس بچے کا مجھ پر کیا حق ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تو اس کا اچھا نام رکھ اسے آداب سکھا اور اس کی اچھی تربیت کر۔امی عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ میرے پاس ایک عورت آئی جس کے ساتھ اس کی دو بچیاں تھیں، وہ مجھ سے کچھ مانگتی تھی۔
اس نے ایک کھجور کے سوا میرے پاس کچھ نہ پایا، میں نے اس کو وہی دے دی۔ اس نے کھجور دونوں بیٹیوں میں تقسیم کردی اور پھر اٹھ کر چلی گئی۔ اس کے بعد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سارا ماجرا کہ سنایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو کوئی بیٹیوں کے ذریعے آزمایا گیا اور اس نے ان سے اچھا سلوک کیا تو یہ اس کے لیے دوزخ سے حجاب بن جاتی ہیں۔جناب ابوہریرہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت حسن بن علی رضی اﷲعنہما کو چوما تو اقرع بن حابس تمیمی جو کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا، نے کہا : میرے دس بچے ہیں، میں نے تو کبھی کسی کو نہیں چوما۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی طرف دیکھا، پھر فرمایا جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔مندرجہ بالا احادیث سے مبارکہ سے والدین کی ذمہ داری اوربچوں کے حقوق کی نشاندہی ہوئی ہے بچے والدین کی توجہ کے خصوصی مستحق ہیں عدم توجہ مسائل اوربگاڑ کا باعث ہے جس کا خمیازہ والدین کے ساتھ معاشرے کو بھی بھگتنا پڑتا ہے ہماری آبادی کا بیشتر حصہ دیہات میں رہائش پذیز ہے اس لیے عورتوں کو خصوصی طور تربیت دینے کی ضرورت ہے ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ بچے کسی بھی قوم کے روشن مستقبل کی ضمانت ہیں۔
جو قومیں بچوں کی تعلیم و تربیت صحت و نگہداشت کے بارے میں لاپروائی کامظاہرہ کرتی ہیں ان کا مستقبل بھی اسی تناسب سے غیر یقینی اور ناقابل رشک ہو جا تا ہے یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ بچوں کے حقوق کے تحفظ کا تصور قوموں کے حقوق کے تصور سے وابستہ ہے انگریزی کامعروف مقولہ ہے۔”Child is the father of the man”یعنی “بچہ آدمی کا باپ ہے”۔۔۔بلاشبہ بچے کسی بھی قوم کا سب سے زیادہ قیمتی سرمایہ ہیں کسی بھی معاشرے کی معاشی ثقافتی اور سماجی ترقی کا انحصار اس کی ان پالیسوں اور طریقہ کار پر ہے جو وہ آنے والی نسلوں کی باقاعدہ تربیت سے متعلق ہے کیونکہ بچے کا دماغ سفید کاغذ کی مانند ہے جو آپ اسے دیں گے وہ اسے وصول کرے گا اپنی عملی زندگی اس کامظاہرہ کرے گا لہٰذا یہ والدین اور ریاست کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کی نشوونما اور ترقی کے لیے ایسی کاوشیں برؤئے کارلائیں جو انہیں مستقبل کے چیلنج سے عہدہ برآہونے کے قابل بنا سکیں بچوں کی نشوونما کے لیے مناسب ماحول پیدا کرنا معاشرے کی اجتماعی ذمہ داری ہے دلیل ارشاد نبوی ہے کہ آگاہ ہو جاؤتم میں سے ہر ایک رکھوالا ہے اورہرایک سے اس کی رعایا کے بارے میں روزقیامت پوچھا جائے گا۔
سو یادر کھو لوگوں کا امیر بھی رکھوالا ہے، اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا، اور ہر فرد اپنے اہل خانہ کا نگہبان ہے، اور ہر عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کی اولاد کی ذمہ دار ہے، اس سے ان کے بارے میں پوچھا جائے گا، اور غلام اپنے مالک کے مال کا نگہبان ہے، اس سے اس بارے میں سوال ہوگا۔ آگاہ رہو، تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور تم میں سے ہر ایک سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا ۔والدین کی عدم توجہ اور عدم اصلاح کے بسبب معاشرے منفی اعمال کو ہوا ملتی ہے جس سے والدین کے ساتھ معاشرہ بھی متاثرہ ہوتا ہے جب غیرذمہ داری حد سے بڑھ جاتی ہے تو اس کا نتیجہ منفی نکلتا ہے صرف بچوں کو اچھے اداروں میں داخل کروانے سے تربیت کا حق ادا نہیں ہوجاتا بلکہ خود اس فرض کو پورا کرنے کے لیے کام کرنا پڑتا ہے ڈگریاں مل جانے سے شعور نہیں آجاتا آداب سیکھانے سے آتے ہیں جو یہ فرض پورا نہیں کرتے انہیں کڑوا پھل کھانا پڑتا ہے پھر وہ اولاد کوکوستے دکھائی دیتے ہیں مگر یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ ہمارے اعمال کی کمائی ہیں جو بویا تھاوہ کاٹ رہے ہیں قارئین کرام والدین اورریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں سے متعلق جامع پالیسی اپنائیں والدین بچوں کی تعلیم کے ساتھ تربیت پر خصوصی توجہ دیں اوریہ اسلام تعلیمی کے ذریعے ہی ممکن ہے۔