راقم نے چند روز قبل بچوں کے حوالے سے ایک مضمون لکھا تھا جسے قارئین نے بہت پسند کیا اور بہت سی قیمتی آراء سے نوازا۔میں دوستوں کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے آج کے مصروف ترین دور میں میرے لیے وقت نکالا اور میری حوصلہ افزائی کی۔دوستوں کی حوصلہ افزائی نے مجھے اس موضوع پر پھر سے لکھنے پر مجبور کر دیا ہے۔
میں نے لکھا تھا کہ بچے وقت مانگتے ہیں آج اسی بات کو آگے بڑھانے کی کوشش کروں گا ،کچھ مزید حقائق آپ کے گوش گزاروں گا اور کوشش کروں گا کہ بچوں کی اچھی پرورش کرنے کی خواہش رکھنے والے والدین کے لیے کچھ آسانیاں پیدا کرسکوں جو کہ دور حاضر میں بہت مشکل کام ہے ۔دور حاضرمیں معاشی حالات نے والدین کواس قدر پریشان کردیا ہے کہ بچوں کو وقت دینا تودور کی بات ہے بچوں کے متعلق سوچنے کے لیے بھی وقت نہیں ملتا کیونکہ بچوں کی صحت و تعلیم،کھانے پینے اور پہنے کے علاوہ بھی بہت سے اخراجات کوپورا کرنے کی ذمہ داری والدین پر ہوتی ہے۔جب دن رات محنت مزدوری کرنے پر بھی اخراجات پورے نہ ہوں تو والدین بچوں کو وقت کس طرح دے سکتے ہیں۔
جب غریب آدمی کی کل آمدنی سے صرف گھر کا راشن پانی پورا نہ ہوتو پھر وہ بچوں کی صحت و تعلیم پر کہاں سے خرچ کرے گا۔ایسے حالات میں انسان کا ذہنی مریض بننا ضروری ہوجاتا ہے اور ایک ذہنی مریض بچوں کو وقت دے کر بھی مثبت طریقے سے پرورش نہیں کر سکتا لیکن مایوسی گناہ ہے اس لیے بچوں کو وقت دے کران کی مشکلات کو آسان کرنے کی کوشش کرنا والدین کی اولین ذمہ داری ہے۔
آج کے بچے ہمارا آنے والا کل ہیں اگر ہم انہیں وقت نہیں دیں گے تو ان کی مشکلات کون دور کرے گا؟بچے معصوم ہوتے ہیں اس لیے اُن کی ذاتی مشکلات نہیں ہوتیں ۔ہمارے دہرے روئیے ہی ہمارے بچوں کی زندگی میں مشکلات پیدا کرتے ہیں۔ہم خود جھوٹ بولتے ہیں اور بچوں کو سچ بولنے کی تلقین کرتے ہیں ۔خود نماز نہیں پڑتے اور بچوں کو نماز پڑنے پرمجبور کرتے ہیں ،بچوں کے سامنے اپنے بہن بھائیوں کا حق نہیں دیتے اور بچوں کوعدل و انصاف کے تقاضے سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔
Parents
ہم خود اپنے والدین کی عزت نہیں کرتے ،بچوں کے سامنے اُن کے ساتھ بدتمیزی کے ساتھ پیش آتے ہیں ،ان کی ضرروریات کا خیال نہیں رکھتے اور اپنے بچوں کو حکم دیتے ہیں کہ وہ ہماری یعنی بچے اپنے والدین کی عزت کریں اور ان کے حقوق کا خیال کریں۔خود دانت صاف نہیں کرتے اور بچوں کو برش کرنے کا حکم دیتے ہیں ،خود دیر تک سوتے ہیں اور بچوں کو صبح سویرے اُٹھ کر نماز کا حکم دیتے ہیں ،خودہاتھ دھوئے بغیر کھانا شروع کر دیتے ہیں اور بچوں کو کھانا کھانے سے پہلے اچھی طرح ہاتھ دھونے کا حکم دیتے ہیں۔
مختصر کہ ہم خود تمام اچھے اعمال کا بائیکاٹ کرتے ہیں اور اپنے بچوں کو اپنانے کا درس دیتے ہیں۔جبکہ بچے ہمارے رویوں اور اعمال کو کاپی کرتے ہیں وہ نہیں سمجھتے ہمارے درس اور احکامات کوبچے وہی کچھ اپناتے ہیں جو والدین کرتے ہیں۔چنانچہ اگر ہم اپنے بچوں کی اچھی پرورش کرنا چاہتے ہیں تو پہلے ہمیں اپنے آپ میں وہ خوبیاں پیدا کرنا ہوں گی جو ہم اپنے بچوں میں دیکھنا چاہتے ہیں ۔بچے معصوم ہوتے ہیں وہ صحیح اور غلط کے فرق کو تب تک نہیں سمجھ پاتے جب تک کہ ان کو گہرائی میںجاکر سمجھایا نہ جائے۔
ہمارے ہاں مائیں بچوں کو کسی غلط بات سے روکنے کے لیے بول دیتیں ہیں کہ تیرا باپ ،پاپا،آنے والا ہے اُس نے دیکھ لیا تو تمھیں مار پڑجائے گی۔یا آ لینے دو تیرے باپ،پاپا کو اُن کو بتا کر تجھے سیدھا کروائوں گی ۔ماں کی اس طرح کی گفتگو سے بچا سمجھتا ہے کہ وہ جو کر رہا ہے وہ کام تو ٹھیک ہے لیکن باپ ،پاپا کو پتا نہیں چلنا چاہیے۔
اس طرح بچے صحیح اور غلط کی تمیز نہیں کرپاتے اور ہربات باپ ،پاپا سے چھپانے لگتے ہیں ۔باتیں چھانے کی یہ عادت آہستہ آہستہ چوری کی عادت میں تبدیل ہوجاتی ،جیسے جیسے بچوں کی عمر بڑتی جاتی ہے چوری کی عادت بچوں کی فطرت میں شامل ہوجاتی ہیں۔ والدین تو اپنے بچوں خامیوں کو برداشت کرلیتے ہیں لیکن ساری دنیا نہیں کرتی۔
Imtiaz Ali Shakir
تحریر:امتیاز علی شاکر:نائب صدر کالمسٹ کونسل آف پاکستان (ccp) imtiazali470@gmail.com.03154174470