بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے بڑھتے ہوئے واقعات پر تشویش

Children Abused

Children Abused

اسلام آباد (جیوڈیسک) وفاقی محتسب سید طاہر شہباز نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا تھا کہ دوہزار سترہ میں ملک بھر میں ایسے چار ہزار ایک سو انتتالیس واقعات سامنے آئے۔ ان کا کہنا تھا کہ سب سے زیادہ واقعات پنجاب میں رونما ہوئے، جہاں ایک ہزار نواسی بچے جنسی زیادتی کا شکار بنے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ قصور میں گزشتہ دس برسوں میں 272 واقعات ہوئے، جس میں با اثر لوگ ملوث تھے۔

وفاقی محتسب کی اس رپورٹ پر انسانی اور بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے سخت تشویش کا اظہار کیا ہے۔ نیشنل کمیشن برائے انسانی حقوق کی رکن انیس ہارون نے اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’حالیہ برسوں میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات روکنے کے لیے قانون سازی کی گئی ہے، جیسا کہ چائلڈ پروٹیکشن اتھارٹی یا چائلد پروٹیکشن سیل کی طرز کے ادارے تقریباً تمام صوبوں میں ہیں۔ ان واقعات کی روک تھام کے لیے قوانین بھی ہیں لیکن ان قوانین پر سختی سے عمل درآمد نہیں ہو رہا۔‘‘

انیس ہارون کے بقول اس کی ایک وجہ ریفرل سسٹم Referral System کی عدم موجودگی ہے،’’ہم نے سندھ میں ان قوانین میں ترمیم کی بات ہے اور یہ تجویز کیا ہے کہ ریفرل سسٹم کو ان قوانین کا حصہ بنایا جائے تاکہ پتا چل سکے کہ اگر ایک بچے کے ساتھ زیادتی ہو گئی ہے، تو اسے سب سے پہلے رپورٹ کہاں ہونا چاہیے، میڈیکل کی سہولت کس طرح بر وقت دی جاسکتی ہے۔ اس کی نفسیاتی حالت کو بہتر کرنے کے لیے اسے کہاں بھیجا جانا چاہیے وغیرہ وغیرہ۔ تو ہم اس پر کام کر رہے ہیں۔ اس میں ہمیں یونیسف اور سندھ حکومت کا بھی تعاون حاصل ہے۔ اس کے علاوہ ہم چائلڈ رائٹس کمیشن پر بھی کام کر رہے ہیں، جو اس طرح کے واقعات کو کم کرنے میں مزید معاون ہو گا۔‘‘

گزشتہ برس قصور میں زینب نامی ایک نوعمر لڑکی کے قتل نے پورے پاکستان کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ زینب کو زیادتی کے بعد قتل کر دیا گیا تھا۔

اس واقعہ کے بعد پورے ملک میں غم وغصے کی لہر دوڑ گئی تھی اور زینب کے قاتل کوگرفتار کر کے سزائے موت بھی دے دی گئی تھی۔

ماہرین کا خیال ہے کہ حکومت کو ہر واقعے سے اسی انداز میں نمٹنا چاہیے۔

بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم ساحل کے ترجمان ممتاز حسین گوہر کا کہنا ہے کہ بڑھتی ہوئی اخلاقی گراوٹ، انصاف کے نظام کی کمزوری، معاشر تی رویے اور تفتیشی عملے کی غفلت ان چند عوامل میں سے ہیں، جو اس طرح کے واقعات کا سبب بنتے ہیں،’’ملک میں کئی گینگ منظم اندازمیں بچوں کو فحش فلمیں دکھا کر اخلاقی طور پر پہلے خراب کرتے ہیں اور پھر ان کواستعمال کر کے انہیں بلیک میل کرتے ہیں۔

سرگودھا اور لاہور میں پکڑے جانے والے ملزموں نے اسی طرح کے کام کیے تھے۔ وہ پورا چائلد پورنو گرافی کا نیٹ ورک چلا رہے تھے۔ ایف آئی اے کی اتنی استعداد نہیں کہ وہ بروقت ایسے افراد کو پکڑ سکے۔ معاشرتی رویوں کی وجہ سے کئی گھرانے اس طرح کے واقعات کو رپورٹ ہی نہیں کرتے، جس کی وجہ سے مجرموں کو حوصلہ ملتا ہے۔ ان تمام اسباب کی وجہ سے اس طرح کے واقعات میں دن بہ دن اضافہ ہورہا ہے۔‘‘

بنگلہ دیش میں ساڑھے چار ملین سے زائد بچے ملازمت کرنے پر مجبور ہیں۔ جن میں سے بعض کام انتہائی خطرناک ہیں جب کہ تنخواہ بہت کم۔ مشقت کرتے یہ بچے اس ملک میں کئی مقامات پر دکھائی دیتے ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق 76فیصد ایسے واقعات دیہاتوں میں رونما ہوتے ہیں جب کہ شہروں میں بے گھر بچے جنسی زیادتی کے زیادہ شکار ہوتے ہیں۔ ممتاز گوہر کے خیال میں دیہاتوں میں سماجی دباؤ بہت زیادہ ہوتا ہے، جس کا فائدہ عموماً ملزم کو ہوتا ہے،’’دیہاتوں میں عدالتیں موجود نہیں ہیں کیونکہ انصاف کے ادارے عموماً دور ہوتے ہیں۔

غریب افراد کے پاس اتنے وسائل نہیں ہوتے کہ وہ روز روز شہر کے چکر لگائیں۔ اس لیے وہ تنگ آکر صلح صفائی کر لیتے ہیں۔ والدین کی خاموشی بھی ایک لحاظ سے ملزم کے حق میں جاتی ہے۔ عام طور پر ان واقعات کے بعد والدین کچھ دنوں خاموش رہتے ہیں، جس کی وجہ سے بچے کا وقت پر میڈیکل چیک اپ نہیں ہو پاتا۔ اہم ثبوت ضائع ہو جاتے ہیں۔ اس وجہ سے ملزم کی پوزیشن مضبوط ہوجاتی ہے اور وہ آسانی سے رہا ہوجاتا ہے۔‘‘

ممتاز گوہر کے بقول حکومت کو چاہیے کہ وہ تفتیش کے جدید ادارے دیہاتوں اور پسماندہ علاقوں میں بنائے، پولیس کے نظام کو ٹھیک کرے اور ان علاقوں میں انصاف کے اداروں کا نیٹ ورک بچھائے تاکہ ظلم کے شکار بچوں کو انصاف بھی ملے اور اس طرح کے واقعات کی روک تھام بھی ہو سکے۔