ضلع قصور میں ماضی میں رونما ہونے والا واقعہ ننھی زینب زیادتی وقتل کیس ابھی آنکھوں سے پوری طرح اُوجھل ہوا نہیں تھا، 250 بچوں سے جنسی زیادتی کے انکشافات کی رُوداد ابھی ذہن ودل سے ہٹی نہیں تھی،ابھی سانحہ قصور کا ہرازخم مندمل ہوا نہیں تھا،ابھی اِس گہرے گاؤ سے قلوب وارواح کو آرام آیا نہیں تھا،ابھی قصور میں اِس المناک واقعہ کاشور تھما نہیں تھا،ابھی تو لوگ پہلے واقعے سے ہی رنجیدہ اورپریشان سوچ رہے تھے کہ ایسا کیا کریں کہ جن سے اُن کے بچے،بچیاں محفوظ رہیں،ابھی تو دل ودماغ اُسی معصوم زینب زیادتی وقتل اور 250 بچوں سے جنسی زیادتی اور اس کی ستم ظریفیوں میں ہی اُلجھا اور کھویا ہواتھا،ابھی توپرانا درد ٹھیک ہوا بھی نہیں تھا،ابھی تو معصوم زینب کے والدین کو قرار آیابھی نہیں تھا،ابھی تو زینب زیادتی وقتل کے دلخراش واقعے نے ہی ضلع قصور کی فضاء کو سوگوار بنایا ہواتھاکہ سانحہ چونیاں رونما ہوگیا،جس میں 4معصوم بچوں علی حسنین،محمد فیضان،سلمان اکرم،محمد عمران کو جنسی زیادتی کے بعدبہیمانہ طریقے سے قتل کردیاگیا،قصور ایک بار پھر لُٹ چکاتھا،معصوم بچی زینب کے جنسی زیادتی و قتل کے بعد چونیاں میں 4 کم سن،معصوم بچوں کے جنسی زیادتی کے بعد وحشیانہ قتل کے نتیجے میں۔چونیاں کے کھیتوں میں بین کرتے ہوئے اپنے لخت جگر کے اعضاء اکٹھے کرتی ایک ماں نے ہر صاحب اولاد کو رُلا دیا تھا۔
علی حسنین کے ماں باپ پر غشی کے پڑتے دورے اور اُس کے ننھے بہن بھائیوں کو شدت ِغم سے روتا دیکھ کر کلیجہ منہ کو آرہاتھا،اِس موقع پر موجودہر آنکھ اشک بار تھی،سوائے حکومتی کرتا دھرتا،مسنداقتدار پر بیٹھے ہوئے افراداوراشرافیہ کے، جوچونیاں کا دورہ کرکے غم زدہ گھرانوں کو مختلف یقین دہانیاں،طفل تسلیاں دے کر چلتے بنے کہ”پریشان مت ہونا،قانون جاگ چکاہے،انصاف ملے گا،تمام واقعے کو پوری طرح جانچا جا رہاہے، ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچاکرہی دم لیں گے،متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او عرفان گل، ڈی ایس پی چونیاں نعیم ورک،ایس ایس پی انویسٹی گیشن محمد شہباز،ڈی پی او قصور عبدالغفارقیصرانی کو ہٹا رہے ہیں اور زینب کیس کو سلجھانے والے ڈی پی او زاہد نواز مروت کودوبارہ تعینات کررہے ہیں“ زاہد نواز مروت ایک قابل آفیسر ہیں،امید ہے کہ سانحہ چونیاں میں رونما ہونے والے واقعے کوبھی سلجھانے میں کامیاب ہوجائیں گے، عوام ضلع قصور میں اِن کی تعیناتی کو ویلکم کرتی ہے اور ساتھ ساتھ یہ امید بھی رکھتی ہے کہ وہ ضلع قصور کے لوگوں کے دکھوں کامداوا بنیں گے،تمام مجرمان تک پہنچ کر اُن کو قرارواقعی ہی سزا دیں گے، جس سے معاشرہ کے ناسور اور بے غیرت عبرت حاصل کریں۔
میرے خیال میں توسابق ڈی پی او قصور عبدالغفار قیصرانی بالکل ٹھیک کام کررہے تھے،انہوں نے اپنے چارج سنبھالتے ہی فوراًہی ضلع قصور پولیس کی بہتری کے لیے کام کیا،ناقص کارکردگی پر بہت سے پولیس والوں کو معطل،برخواست بھی کیا، ایس پی انویسٹی گیشن محمد شہباز بھی اچھاکام کررہے تھے،جرائم کی بیخ کنی میں انتہائی ACTIVE تھے،اُن سے چونیاں کے حوالے سے کوئی سستی کوتاہی ہوگئی ہوتو کچھ کہانہیں جاسکتا،ورنہ ایک اچھے آفیسر کے طور پر جانے جاتے ہیں،لوگوں کے مسائل کو دل جمعی سے سنتے ہیں اور بہتر اورمناسب فیصلے صادر فرماتے ہیں۔موجودہ نئے ڈی پی او زاہد نوازمروت کے لیے وفاقی محتسب اعلیٰ کی ضلع قصور کے حوالے سے ماضی میں جاری کی گئی ایک مفصل رپورٹ ایک آئینہ اور رہنما کاکردار اداکرے گی،جس میں بتایاگیا کہ ضلع قصور کے رہبر،رہنما، محافظ،انصاف کے ٹھیکیدارہی اہل قصور کو انصاف دینے کی راہوں میں حائل رکاوٹ بنے رہے۔
امید ہے کہ ڈی پی او صاحب ایسے لوگوں کے گرد بھی گھیرا تنگ کریں گے،اِن کا بھی محاسبہ کریں گے،پھر اِس ملک کا حال بھی تو یہی والا ہے کہ بے گناہ سزاپاتاہے،ظالم ظلم ڈھاتاہے،شریف ذلیل ہوتاہے اور بے غیرت عزت پاتا ہے،حواکی بیٹی عزت لٹ جانے پریاماردئیے جانے پرظلم کی تصویر بنی چینل کی ہیڈلائنز اور اخبار کی سرخیوں کی زینت بنتی اور مجرم فرار ہوجاتا،ظلم بہت زیادہ اور انصاف ناپید،مظلوم آہیں اور دہائیاں دے رہااورظالم کی رسی دراز،ظلم عام اور انصاف کا حصول تکلیف دہ،وجہ وڈیرے،جاگیردار،سرمایہ دار،اپنے ماتحتوں کو دبائے ہوئے،بے خبر حکمران اور بے بس رعایا،جبکہ پولیس والوں کا لوگوں سے رویہ ہی ٹھیک نہ ہے،چند ایک کو چھوڑ کر سارا عملہ ہی بدزبان اور بد لحاظ ہے،رشوتوں کے سوبہانے تراش لیتے ہیں۔
خدمت خلق کا ایک پہلو بھی نمایا ں نہیں،بوقت ضرورت کام نہ آنا اِس ادارے کی فطرت ٹھہری،بعدازاں روپوں اور پیسوں کی جھنکار میں پاگلوں کی حد تک لیٹتے،گھسیٹتے حالت میں بھی اِن کا چلے جانااِن کا کام،غریب کے کام نہیں آنا،اُس کی بے عزتی کرنا،اُس کو باتیں بنانااِن کا وطیرہ ٹھہرا،کوئی بڑا آدمی چلاجائے تو اُس کی خدمت اور جی حضوری میں آگے پیچھے ہوتے،کوئی پریشانی تکلیف تو نہیں، پوچھتے، ہربات،ہرکام پر تعمیل ہوگی سر،کہتے نہیں تھکتے،ٹاؤٹ افراد کا انبار لگا رکھا،جو سارادن اِن کے لیے کام کرتے،اِن کا دانہ دنکا چنتے،جوعام تاثر پھیلاتے کہ اِس پیسے سے اوپر والے بھی پورے پورے مستفید ہوتے ہیں، ایسے پولیس اور ادارے جن کا کام ہے مدد آپ کی۔
عوام کے کسی کام نہ آکر،لوگوں کو بیجا تنگکرکے،پریشان کرکے،افراد کو چیکنگ کے نام پر سڑکوں پر کوئی نہ کوئی بہانہ تراش کر رشوت کا دھانہ کھولے،رشوت کے نام پر صرف اور صرف غریب اور بے بس شہریوں کو ناحق لوٹ ہی سکتے ہیں، عوام کی خیر خواہی نہیں کرسکتے اور نہ ہی اِن میں لوگوں کی بھلائی،خیر خواہی کاجذبہ،سانحہ قصور،حسین خان والا،چونیاں کے اصل مجرمان کو پکڑنے سے یکسر قاصر ہیں،اُن بااثر افراد پر ہاتھ ڈالنے سے ڈرتے،اِن کا کام صرف اورصرف تھانوں میں تشدد کا ماحول بنائے رکھنا،افراد کو تھرڈ ڈگری ٹارچرکرنا،اپنے لب ولہجے سے فرعونیت کا روپ دھارے خوف کی فضاء پیداکیے رکھنا،امیروں کے ہر جائزوناجائز کام میں اُن کے پیچھے دُم ہلائے چلنا اور غریب کے جائز اور ٹھیک کام میں بھی اُس کے کام نہ آناہے،ایسے پولیس والوں سے قصور کی بہتری کی امید لگانا اپنے آپ اور دھرتی قصور سے دھوکے کے علاوہ اور کچھ نہیں،لوگوں کی تکلیفوں پر مذاق بنانے والے،متاثرین کے بیان کیے گئے واقعے پرغلط فقرے کسنے والے،سارے سانحے کو کوئی اور رنگ دینے والے پولیس اہلکاراکثر کانوں سے بہرے،آنکھوں سے اندھے ہوتے ہیں،بے حس،احساس سے عاری،جنہیں لتھی نہ چڑھی سے کوئی سروکار نہیں ہوتی۔بہرکیف دیر آئد درست آئد، زاہدنواز مروت کی بطور ڈی پی او تعیناتی قصور کے گھٹن زدہ ماحول میں ایک تازہ ہوا کے جھونکے کی طرح ہے۔#