تحریر : سید امجد حسین بخاری پاکستان کے نظام تعلیم پر جنتا لکھا گیا اگر اس کی صرف سیاہی ہی جمع کی جائے اور ان کاغذات کو ردی کے طور پر بیچا جائے تو ایک اچھی خصوصیات کا حامل تعلیمی ادارہ تعمیر کیا جا سکتا ہے۔ مگر اس تعلیمی نظام میں بہتری کے لئے کوششوں پر سر شرمندگی سے جھک جاتا ہے۔جب سے میڈیا میں نجی چینلز کا اضافہ ہوا اور سوشل میڈیا تیزی سے پروان چڑھا ہے اس کے بعد تعلیم کی بہت سی خرابیاں سامنے آ رہی ہیں۔مگر ان خرابیوں کے باوجود حکمران اور اپوزیشن کرسی کرسی کھیل رہے ہیں جبکہ عام آدمی کو دال دلیے سے فرصت میسر نہیں۔درس گاہیں رقص گاہیں بنی اور کہیں قتل گاہیں بن رہی ہیں۔ کہیں والدین سے بغاوت کا درس پڑھایا جانے لگا اور بعض اداروں میں معاشرے اور اقدار و روایات سے لڑنے کا سبق دیا جا رہا ہے۔
جی ہاں یہی درس گاہیں جہاں کبھی انسانیت کا درس دیا جاتا تھا، معلم پیار والفت کا نمونہ ہوتے تھے، جہاں استاد اور شاگرد کے درمیان عزت ، احترام اور لگائو کا رشتہ تھا وہیں اب ان درس گاہوں سے نفرتیں جنم لے رہی ہیں،خوف پروان چڑھ رہا ہے، کتابوں کے الفاظ کی جگہ چیخیں بلند ہو رہی ہیں۔ سرکاری تعلیمی اداروں کے استاد اگر جلاد کہلاتے ہیں تو نجی تعلیمی ادارے مادری زبان کو جاہلوں کی زبان کہہ کر احساس برتری قائم رکھنے کی تگ و دو کر رہے ہیں۔میں حیران ہوتا ہوں کہ کسی دینی مدرسے کا ایک طالب علم زنجیروں میں قید نظر آگیا تو میڈیا سوشل میڈیا نجی محافل ہر جگہ مولوی جاہل قرار پاتا ہے۔مگر فیس نہ ملنے پر بچوں کو سکول سے نکال دینا نظم و ضبط کہلاتا ہے۔
Course of Study
نوخیز طالبات کو جو سبق انہیں ان کی مائیں اور بڑی بہنیں پڑھاتی تھیں وہی سبق درس گاہ میں سینکڑوں طلبہ و طالبات کے سامنے پڑھایا اور سکھایا جاتا ہے توجیح یہ پیش کی جاتی ہے کہ ”شرم کس بات کی”۔صوبوں کے پاس نصاب تعلیم کے اختیارات جانے کے بعد این جی اوز نے صوبوں کو نصاب سازی کے لئے خزانوں کے منہ کھول دئیے۔اپنی کرپشن کو چھپانے کے لئے تیسری اور چوتھی جماعت کے طلبہ و طالبات کو جنسی تعلیم شامل نصاب کردی جاتی ہے۔ تمام لوگ دفاع اور مخالفت میں سامنے آجاتے ہیں مگر اصل کرپشن کی جانب کسی کی نگاہ نہیں پڑتی۔ میرا مقصد نصاب تعلیم یا نظام تعلیم کے بخیئے ادھیڑنا نہیں بلکہ گذشتہ روز چلنے والی دو خبروں نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا،کیڈٹ کالج لاڑکانہ کے چودہ سالہ طالب علم محمد احمد کو اساتذہ کی جانب سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
اس کا گلا دبایا گیا ،جس سے اس کی قوت گویائی ختم ہوگئی۔وہ اپنے حواس کھو بیٹھا، ایک چلتا پھرتا طالب علم استاد کے تشد د کے باعث مکمل معذور ہوگیا۔ یہ تشدد بچے پر چار ماہ قبل ہوا۔ بچے کے والد کی جمع پونجی اس کے علاج پر خرچ ہوگئی اب جب کہ ڈاکٹروں نے پاکستان میں علاج سے معذرت کرلی تو میڈیا کو بھی خیال آیا کہ اس واقعے کو حکام بالا تک پہنچایا جائے۔ چار ماہ تک خاموشی گو کہ بہت سے سوال پوچھ رہی ہے مگر دیر آید درست آید پہ ہی سر تسلیم خم کرتے ہیں۔
میڈیا پر خبر نے گویا حکام کی آنکھیں کھول دی ، سیکرٹری تعلیم اور سیکرٹری صحت دونوں نے ڈاکٹروں کی ایک ٹیم تشکیل دی۔ قبلہ ڈاکٹرز کی ٹیم تشکیل دینے سے شاید کے بچے کے حواس بحال ہو جائیں، شاید ان کی کچھ تشفی ممکن ہو مگر دل کا وہ غبارجو بوڑھے باپ کی آنکھوں سے موتیوں کی شکل میں نکل رہا تھا اس کی داد رسی کون کرے گا۔ اس کے بڑھاپے کا عصا بننے والے بیٹے کو اس کے سامنے تڑپنے کے لئے چھوڑ تو دیا گیا مگرایسا کرنے والوں کے گرد گھیرا کون تنگ کرے گا۔میڈیا پر ضعیف باپ چیخیں شاید چینلز کی ٹی آر پی بڑھانے میں ممدو معاون ثابت ہوئی ہوگی مگر کیا اس باپ کا درد کسی نے محسوس کیا؟ وہ بوڑھا تو بس ایک ہی صدا لگا رہا تھا اس کے لاڈلے کو معذور کرنے والوں کو پھانسی بھی دے دی گئی تو بھی اس کے زخمی جگر کو مرہم میسر نہیں ہو گی۔مگر خدارا انہیں کیفر کردار تک لازمی پہنچائیے تاکہ جو میرے بیٹے کے ساتھ ہوا وہ کسی اور ماں کے لعل کے ساتھ نہ ہو۔اپنے بیٹے کی وہیل چئیر دھکیل ہوئے سفید داڑھی آنسوئوں سے تر تھی شاید ان آنسوئوں میں بڑھاپے کے ارمان بہہ رہے تھے یا بیٹے کے روشن مستقبل کی امیدیں قطرہ قطرہ بن کر دم توڑ رہی تھیں۔یہ آنسو بہت انمول ہوتے ہیں ، آسانی سے بہتے نہیں ہیں، مگر جب خواب مر جائیں، امیدیں ٹوٹ جائیں، راستے بند ہو جائیں تو سسکیوں اور آہوں کے ساتھ یہ آنسو بھی آ جاتے ہیں دل کا غبار شاید آنکھوں کی برسات کے بعد چھٹ جاتا ہوگا مگرچاک دامن ، چھلنی جگر کے زخم کیسے مندمل ہو سکتے ہیں۔
Mohammad Ahmad
درس وتدریس میں نمایاں مقام کے حامل تعلیمی ادارے اگر یہ کام کرنا شروع کردیں گے تو بھینسوں کے باڑے میں بنے ہوئے سکول میں تعلیم دیتے ہوئے استاد سے کیا توقع کی جاسکتی ہے۔جب احساس برتری کے زعم میں مبتلا اساتذہ طلبہ وطالبات کے ساتھ ذلت آمیز رویہ اپنائیں گے توباقی لوگوں سے کیا امیدیں وابستہ کی جاسکتی ہیں۔مگر احساس برتری سکولوں کی خوبصورتی کے ساتھ وابستہ نہیں ، اجلے بستوں اور خوبصورت و دیدہ زیب وردیوں والے طلبہ وطالبات کو پڑھانا ہی برتری کا معیار نہیں ہے۔ معلم کو تو خود خوبصورت ہونا پڑتا ہے۔
جب معلم کے اندر اخلاق و کردار کی بلندی ہوتی ہے تو اپنے شاگرد کی زندگی کے لئے وہ دریائے کنہار کی موجوں سے الجھ پڑتا ہے۔ جب تعلیم دولت و شہرت کاذریعہ نہیں بنایا جاتا تو معلمہ بس میں لگی آگ کے شعلوں میں کود کر اپنے شاگردوں کو بچا لیتی ہے۔ارے ہاں دشمن کی گولیوں میں اپنے طلبہ کو بچا لینے والی بھی تو معلمہ ہی ہے۔ہاں مجھے گیارہ سال قبل آنے والے زلزلے میں اساتذہ کی قربانیاں یاد آرہی ہیںجو کہ بظاہر اپنی زندگیاں بچا سکتے تھے مگر وہ اپنے شاگردوں کو زندگی دینے کے لئے خود امر ہوگئے۔تعلیم انسان کو شعور دیتی ہے، انسانیت سکھاتی ہے مگر اس دور جدید میں درندگی اور حیوانیت کی مثال دیکھ کر مجھے دور حاضر کے دانشوروں پر ترس آتا ہے ۔ ہاں دوسری خبر جو شاید چند لمحے ہی چینلز پر چلی سکول سے فیس نہ جمع کرانے پر نکال دیا جانے والا طالب علم کراچی میں گندے نالے میں ڈوب کر جاں بحق ہو گیا اور ابھی تک اس کی لاش کی تلاش جاری ہے۔حضور یہ واقعات شاید بڑے شہروں میں ہوتے ہیں تو نظر آ جاتے ہیں۔
اندرون سندھ کے گھوٹ، پنجاب ، خیبر اور بلوچستان کے دوردراز گائوں میں روزانہ ایسے واقعات تسلسل سے رونما ہو رہے ہوتے ہیں ۔ مگر ان واقعات کو نہ میڈیا کور کرتا ہے اور نہ ہی سوشل میڈیا کے لٹھ باز میدان میں آتے ہیں۔مجھے تو ایسا لگ رہا ہے کہ معصوم طلبہ وطالبات پر ہونے والے تشدد اور تعلیمی اداروں کے اس رویے کے ہم خود ہی ذمہ دار ہیں۔کہیں نہ کہیں اس میں ہمارا بھی حصہ ہے۔ ہم خود ہی اپنے ہاتھوں سے کبھی تعلیم اداروں کی بھاری فیسوں اور مطالبات کے ہاتھوں احساس کمتری میں مبتلا کر رہے ہیں تو کبھی اساتذہ کے زبانی اور جسمانی تشدد کو سہنے پر مجبور کر رہے ہیں۔اپنے ہاتھوں سے ہی معصوم بچوں کو ذبح کر رہے ہیں۔
ہمیں اپنی اولادوں سے پیار ہے ان کی تمام خواہشات پوری کرتے ہیں۔ اچھے سے اچھے تعلیمی ادارے میں بھیجتے ہیں تاکہ وہ بہتر تعلیم حاصل کر سکیں۔ مگر کبھی اس پر بات نہیں کہ تعلیم تو ہر شہری کا بنیادی حق ہے اور ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ شہریوں کو تعلیم کے یکساں مواقع فراہم کرے۔مگربات کرنے سے کیا حاصل ہونا۔ہمارا وقت گزر گیا اب ہمارے بچوں کا دور ہے۔ یہ جدید دور ہے، چلیں سب باتیں ایک طرف ” اپنے بچوں کو مل کر ذبح کرتے ہیں”۔ تاکہ نہ ریاست کو کوئی پریشانی ہو اور نہ ہی کوئی برتری کے نشے میں مبتلا تعلیمی ادارہ یا استاد ہمارے آنسو ئوں کے ساتھ کھیل سکے۔