بچوں کو خود پڑھائیں

Children Teach Parents

Children Teach Parents

تحریر: ثمرین یعقوب، خوشاب
بچوں کی تربیت کا مرحلہ والدین کے لیے ازل سے ہی کٹھن ہی رہا ہے لیکن ہمارے آج کے دور کے بچوں کے بگاڑ کے پس منظر میں والدین کا بچوں کو بے جا لاڈ اور اون کی جائز و ناجائز خواہشات کی تکمیل بھی ایک خاص وجہ ہے۔ بچے چونکہ تازہ و شگفتہ پھوٹتی ہوئی کونپلیں ہوتے ہیں اس لئے ان کو جس راہ چلادیا جائے اسی پر گامزن ہوجاتے ہیں۔ اگر ان کے جذبات کا خیال رکھنے کے ساتھ ساتھ ان کی فکری و عملی تربیت سنجیدہ افکار کی بنیادوں پر استوار نہ کی جائے تو معاشرے کے لئے بوجھ بن جاتے ہیں اگر کل کو انہیں زمانے کی سختیاں جھیل کر عظیم انسان بننا ہے تو آج ان کوآنے والے وقت کی پیچیدگیوں سے آگاہ کرنا ہوگا جن ماو ¿ں نے اپنے بچوں کی ٹھوس بنیادوں پر تربیت کی ان کو تاریخ ہمیشہ سلام کرتی رہے گی۔

آج سہولیات اور آسائشوں سے مزین دور ہے تو پھر بھی بچے تعلیمی سرگرمیوں میں خاطر خواہ کا میابیاں حاصل کرنے میں ناکام کیوں ہیں؟ بچے آنگن کے پھول ہوتے ہیں، جب تک یہ پھول آنگن میں نہیں کھلتے گھر بھی بے رونق اور خوشیوں سے خالی ہوتا ہے۔اولاد اللہ پاک کی ایک بہت بڑی نعمت ہے اس کی قدر ان سے پوچھئے جن کے آنگن میں یہ پھول نہیں کھلتے۔ بچہ جب اس دنیا میں آتا ہے تو بالکل کورا کاغذ ہوتا ہے ہم جو چاہیں اس پر تحریر کر دیں۔

Parents Teaching Children

Parents Teaching Children

بچے کی پہلی درس گاہ ماں کی گود ہوتی ہے مگر بچہ اپنے باپ کا بہت اثر لیتا ہے۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ” ایک باپ اپنی اولاد کو جو کچھ دیتا ہے اس میں سب سے بہتر اس کی تعلیم و تربیت ہے۔“بچے اپنی اخلاقی قدریں نہ صرف اپنے خاندان بلکہ اپنے اطراف سے بھی سیکھتے ہیں۔ اولاد کی صحیح تربیت والدین کا اوّلین فرض ہے۔ اولاد کی نیک تربیت کے بے شمار فوائد و ثمرات ہیں۔

تربیت یافتہ اولاد والدین کی نیک نامی کا سبب بنتی ہے۔ ان کے بڑھاپے کا سہارا اوران کے مرنے کے بعد ان کے لیے صدقہ جاریہ بن جاتی ہے۔ اس کے برعکس اگر اولاد کی تربیت اچھی نہ کی جائے تو وبالِ جان بن جاتی ہے۔والدین کی ذمے داری ہے کہ وہ اپنی اولاد کو اخلاقِ حسنہ سکھائیں اور نیک تعلیم دیں۔ اگر آپ پڑھی لکھی ہیں شوقیہ جاب کرنے سے بہتر ھے کہ اپنے بچوں کو خود پڑھائے۔ اس طرح آپ اپنے بچوں کے قریب ہوکر انکی سرگرمیوں پر نظر رکھ سکتی ہیں۔

ان کی فطرت کے مطابق مدلل انداز میں سمجھا سکتی ہیں ، ان کی دوست اور ٹیچر بن کر۔ استاد کا رتبہ ماں باپ کے برابر ہے۔ اکثر ماں کو شکایت ہوتی ہے کی بچے ان کے کنڑول میں نہیں آتے۔ وہ انہیں ڈانٹ اور طعن و تشنیع سے پرہیز کریں کیونکہ بچے اس سے چڑ جاتے ہیں اور بغاوت پر اتر آتے ہیں۔ ان کی بات کو بھی اہمیت دیں انہیں بھی احساس دلایں کہ وہ بھی اہم ہیں ان پر ذمہ داریاں بھی ہیں۔ بوقت ضروت ان سے گیم بھی کھیلیں۔ بعض اوقات ایسے گیم کھیلیں جن سے ان کی ذہانت میں اضافہ ہو۔ کبھی ایسے کھیل بھی کھیلیں جن سے ان کی جسمانی مشق بھی ہو۔

Parents

Parents

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اطفال سے بہت محبت فرماتے تھے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”جنت میں ایک گھر ہے جسے دارالفرح (خوشیوں کا گھر) کہا جاتا ہے اس میں وہ لوگ داخل ہوں گے جو اپنے بچوں کو خوش رکھتے ہیں“۔ایک اور موقع پر فرمایا” وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جو چھوٹوں کے ساتھ شفقت اور بڑوں کے ساتھ عزت و اکرام کا معاملہ نہ کرتا ہو“۔ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کی غلطی کل کو بہت بڑا خسارہ ہے۔ اس طرف خصوصی توجہ دیں۔ لڑکا اور لڑکی کے امتیاز کے بنا سب پر توجہ دیں۔

تحریر: ثمرین یعقوب، خوشاب