بچیوں کا عالمی دن اور ہمارا معاشرہ

Children's Day World

Children’s Day World

تحریر : محمد مظہر رشید چوہدری
ارشاد ربانی ہے “آسمانوں کی اور زمین کی سلطنت اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے، وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے جس کو چاہتا ہے بیٹیاں دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے بیٹے دیتا ہے یا انہیں جمع کردیتا ہے بیٹے بھی اور بیٹیاں بھی اور جسے چاہے بانجھ کر دیتا ہے وہ بڑے علم والااورکامل قدرت والا ہے” مندرجہ بالا آیت کے ترجمہ میں بیٹیوں کا ذکر پہلے آنے کے بارے میں علماء کرام کا کہنا ہے کہ بیٹوں پر بیٹیوں کے ذکر کو پہلے کرنے میں بیٹیوں کی اہمیت و فضیلت کو اجاگر کرنے اور اُن سے مشفقانہ رویہ اختیار کرنے کی تاکید مقصود ہے، کیونکہ ہر دور میں بہت سے والدین بیٹی کی پیدائش کو بوجھ تصور کرتے رہے ہیں۔ زمانہ جاہلیت میں بیٹیوں کی پیدائش پراس حد تک نفرت انگیز طریقہ کار اختیار کیا جاتا تھاکہ انہیں زندہ درگور کرنے سے بھی نہیںکتراتے تھے۔ لہٰذا اس آیت میں گویا اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ تمہاری نگاہوں میں یہ کمتر اور حقیر بچی، میری نگاہوں میں سب سے زیادہ مقدم ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے بیٹیوں کا ذکر اس لئے فرمایا تاکہ ان کی صنفی نزاکت کی جانب توجہ مبذول کرے اور یہ کہ ان پر بہت زیادہ توجہ اور نگہبانی کی ضرورت پیش آتی ہے۔قبل از اسلام میں بچیوںکے ساتھ بہت ہی بدترین سلوک روا رکھا جاتا تھاکہ وہ خواتین کو بہت ہی حقیر درجہ پررکھتے اور انہیں اپنی دولت کا ایک حصہ شمار کرتے، اگر ان میں سے کسی کو لڑکی کی ولادت کی خبر دی جاتی تو ان پر بجلی گر پڑتی، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:ترجمہ”ان میں سے جب کسی کو لڑکی ہونے کی خبر دی جائے تو اس کا چہرہ سیاہ ہو جاتا ہے اور دل ہی دل میں گھٹنے لگتا ہے۔ اس بری خبر کی وجہ سے لوگوں سے چھپا چھپا پھرتا ہے۔

سوچتا ہے کہ کیا اس کو ذلت کے ساتھ لئے ہوئے ہی رہے یا اسے مٹی میں دبا دے، آہ! کیا ہی بُرے فیصلے کرتے ہیں؟”کہاجاتا ہے کہ قیس بن عاصم التمیمی کے بعض دشمنوں نے قبل از اسلام عرب کے دور میں ان کے علاقہ پر حملہ کرتے ہوئے اُن کی بیٹی کو اپنے قبضہ میں لے لیا۔ بعدازاں، ان دشمنان میں سے کسی نے اس لڑکی سے شادی کرلی۔ کچھ مدت بعد قبیلہ قیس اور ان کے دشمنوں کے درمیان مصالحت ہوگئی اور دشمنوں نے لڑکی کو اس بات کا اختیارو آزادی دی کہ چاہے وہ اپنے باپ کے پاس چلی جائے یا اپنے شوہر کے ہمراہ ہی رہے اور لڑکی نے اپنے شوہر کے ساتھ رہنے کو ترجیح دی۔ اس موقع پر قیس نے یہ عزم و عہد کرلیا کہ وہ اپنی ہر پیدا ہونے والی لڑکی کو زندہ درگور کردے گااور عربوں نے اس کے بعد اس کی دیکھا دیکھی میں اس کی پیروی شروع کردی۔ لہٰذا اس بدترین بُرائی کو متعارف کرانے والے شخص کے کاندھوں پر خود اس کا گناہ رہیگا اور اس کی پیروی کرنے والے دیگر افراد کا بھی گناہ اسی کے سر ہوگا۔قبل از اسلام میں اپنی بیٹی کو قتل کرنے والے ایک صحابی رسول نے نبی کریم ۖ کے روبرو اس واقعہ کو نقل کرتے ہوئے فرمایا: “قبل از اسلام ہم مورتی پوجا کرتے اور اپنی بیٹیوں کو قتل کردیتے تھے۔ میری ایک بیٹی تھی جو اس عمر کو پہنچ چکی تھی کہ بات کو سمجھ سکے اور بات چیت کرسکے اور اس کا معمول تھا کہ جب کبھی وہ مجھے دیکھتی تو خوشی و مسرت سے جھوم اٹھتی اور میری بات کا فوری جواب دیتی۔ ایک روز میں نے اس کو بلایا اور اپنے ساتھ چلنے کو کہا، تو وہ میرے ساتھ چل پڑی یہاں تک کہ ہم ایک ایسے کنویں کے پاس پہنچ گئے جو میرے قبیلہ ہی کی ملکیت تھی۔میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اس کنویں میں پھینک دیا اور سب سے آخری بات جو میں نے اس کی چیخ میں سنی وہ “اے میرے ابو! اے میرے ابو! تھی۔(الدارمی)قبل از اسلام میں لوگ اپنی بیٹیوں کو دو طرح سے قتل کر دیتے تھے لڑکی کی ولادت کے موقع پر شوہر اپنی بیوی کو اس بات کا حکم دیتا کہ وہ میدان میں کھودے گئے ایک گڑھے سے متصل مقام پر زچگی کا عمل مکمل کرے، اگر نومولود لڑکا ہوتا تو وہ اس کو گھر لے آتی، ورنہ لڑکی کی پیدائش کی صورت میں اس کھودے گئے گڑھے میں پھینک دیا جاتا اور اس میں زندہ درگور کردیا جاتا۔

دوسراجب بیٹی کی عمرچھ سال کو پہنچ جاتی تو شوہر اپنی بیوی سے کہتا کہ وہ بیٹی کا بناؤ سنگھار اور اس کو خوشبو میں معطر کردے، پھر وہ اس کو ریگستان میں واقع کسی کنویں کے پاس لے جاتا اور اس سے کہتا کہ وہ اس کنویں میں جھانک کر دیکھے اور جب وہ ایسا کرتی تو پشت سے دھکیل دیتا۔تاہم اس دور میں صعصعہ بن ناجیہ التمیمی جیسے کچھ ایسے بھی لوگ تھے جو اس طرح کے کاموں سے گریز کرتے اور دوسروں کو بھی منع کرتے اور بیٹیوں کو قتل کا ارادہ رکھنے والوں کو ان کی جان کے عوض کچھ رقم دے دیتے۔اسلام کی آمد کے ساتھ ہی سابقہ دور کی تاریکیوں اور ظلمتوں اور مکروہ رسموںکا خاتمہ ہوگیا اور اللہ تعالی نے بچیوں(بیٹیوں ) کے ساتھ شفقت، محبت اور لطف و کرم اپنانے کی تاکید فرمادی۔ لڑکیوں پر بہترین توجہ دینے اور ان کی عمدہ نگہبانی کرنے کے عمل کی حوصلہ افزائی کی۔انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت محمد ۖنے فرمایا”جس کسی نے دو لڑکیوں کی پرورش کی یہاں تک کہ وہ بالغ ہوگئیں ” انگشتِ شہادت اور درمیانی انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا “تو میں اور وہ اس طرح جنت میں داخل ہوں گے”صحیح مسلم ۔ام المومنین حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ “جمیلہ نامی ایک خاتون میرے پاس آئی۔ اس کے ساتھ دو بچیاں تھیں ، وہ مجھ سے کچھ مانگنے کے لئے آئی تھی۔ اس وقت میرے پاس ایک کھجور کے علاوہ کچھ نہیں تھا وہی میں نے اس کو دے دی۔ میں نے دیکھا کہ اس نے کھجور کو ان دونوں بچیوں میں تقسیم کردیا اور خود کچھ نہیں کھایا۔ اس خاتون کے چلے جانے کے بعد کچھ دیر بعد رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس عورت کا سارا حال سنایا کہ باوجود بھوکی رہنے کے اس نے بچیوں کو ترجیح دی” یہ سن کر محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا”جو شخص لڑکیوں کے بارے میں آزمایا جائے یعنی اس کے یہاں لڑکیاں پیدا ہوں اور پھر وہ ان سے اچھا سلوک کرے ، انہیں بوجھ نہ سمجھے تو یہ لڑکیاں اس کے لئے دوزخ کی آگ سے ڈھال بن جائیں گی” (مشکوةشریف) ۔حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ “جس شخص کے ہاں لڑکی پیدا ہو اور وہ خدا کی دی ہوئی نعمتوں کی اس پر بارش کرے اور تعلیم و تربیت اور حسنِ ادب سے بہرہ ور کرے تو میں خود ایسے شخص کے لئے جہنم کی آڑ بن جاؤں گا” (بخاری)۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صنف نازک کے ساتھ بہترین سلوک اور برتائو کی تاکید کی ، خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی عورتوں کے ساتھ اچھابرتائو اور ان کے ساتھ حسن سلوک فرماتے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی عورتوں کے ساتھ نیکی ، بھلائی ،بہترین برتائو ، اچھی معاشرت کی تاکید فرمائی ہے ، حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ۖنے فرمایا تم میں سب سے بہترین وہ لوگ ہیں جو اپنی عورتوں کے ساتھ اچھا برتائو کرتے ہیں ، اورمیں تم میں اپنی خواتین کے ساتھ بہترین برتائو کرنے والا ہو(ترمذی :کتاب المناقب : باب فضل ازواج النبی ، حدیث : ٥٩٨٣ )اور ایک روایت میں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا : حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں تم کو عورتوں کے بارے میں بھلائی کی نصیحت کرتاہو ں(مسلم : کتاب الرضاع ، باب الوصیة بالنساء ، حدیث : ٨٦٤١)۔ہم نے آجکل اسلام کی حقیقی تعلیمات کو چھوڑ کر غیروں کی تقلید کو اپنا اشعار بنا لیا ہے جسکا نتیجہ آجکل ہمارے سامنے ہے ۔ ہر ایک بچی کو اگر بچپن سے ہی وہ پیار اور شفقت نصیب ہو جو نبی کریم ۖ نے اپنی بیٹیوں کو دی اور ان کے ذہنوں پر اسلامی تعلیمات کا اثرتادم مرگ قائم رکھنے کے لیے ان کی تعلیم و تربیت اسلامی انداز میں کی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ موجودہ دور میں بھی محمد بن قاسم ،محمود غزنوی جیسے بہادر اور جری پیدا نہ ہوں۔ پاکستانی اور ہندو ستانی خطے میں انگریزوں کے دور سے لے کر اب تک بیٹی اور بہن کو وراثت کے حق سے محروم رکھا جاتا ہے۔جو حق دین اسلام اور ہمارا آئین دیتا ہے اس پر عمل کرنا تو درکنار بلکہ ثقافتی یلغار کے زیر اثر آکر ہم نے اپنے بچوں کو گھر میں ٹی وی ، کمپیوٹر،جدید موبائل لا کر دے دیے لیکن اِن چیزوں کا درست استعمال نہیں بتایا۔

ساراسارا دن ان جدید اشیاء سے کھیلنا محبوب مشغلہ بن چکا ہے جسکی وجہ سے معاشرہ میں بے راہ روی فروغ پارہی ہے طلاقوں کی شرح بڑھ چکی ہے رات گئے تک بے مقصد چیٹنگ لچر فحش تصویر کے تبادلے معاشرے میں بگاڑ کا سبب بن رہے ہیں ۔دین اسلام کی تعلیمات پر عمل کرکے ہم صالح اور نیک نسل تیار کر سکتے ہیں موجودہ صدی میں دنیا کو بچیوں سے امتیازی سلوک برتنے کے خلاف عالمی دن منانے کا یاد آیا تاکہ بچیوں کے ساتھ ظلم وزیادتی کو کم کیا جاسکے گیارہ اکتوبر 2012سے لڑکیوں کا بین الاقوامی دن پاکستان سمیت دنیا بھر میں منایا جاتا ہے کہا جاتا ہے کہ 1.1بیلن بچیوں کو دنیا کے مختلف معاشروں میں مسائل کا سامنا ہے جس میں تعلیم کا حق،حق جائداد اور جنسی طور پر ہراساں کرنا بھی شامل ہے میرے خیال میں اگر ہم وطن عزیز پاکستان میں اپنی بچیوں کو دین اسلام کی تعلیمات کے مطابق زندگیاں گزارنے کی تربیت دیں تو کوئی وجہ نہیں کہ معاشرہ نیک وصالح کی شکل میں نظر نہ آئے۔

MUHAMMAD MAZHAR RASHEED

MUHAMMAD MAZHAR RASHEED

تحریر : محمد مظہر رشید چوہدری