تحریر: سید انور محمود بچوں سے ہم سب بلا کسی تفریق کے پیار کرتے ہیں، میں اپنے بچوں سے بہت پیار کرتا ہوں اور یقیناً آپ سب بھی اپنے بچوں سے بہت پیار کرتے ہونگے۔ پوری دنیا میں تاریخی حقائق کے مطابق 1950 کے عشرے میں بچوں کے بارے میں یہ احساس پیدا ہوا کہ ترقی پذیر ممالک کے بچے صحت، تعلیم اور تفریحی سہولتوں سے محروم ہیں۔ 1989 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بچوں کے منظور شدہ حقوق کا اعلان کیا اور20 نومبر 1990 کو دنیا کے تقریباً 186 ممالک نے بچوں کے عالمی دن کے منظور شدہ حقوق کے مطابق باضابطہ حمایت کرکے 20 نومبر کو بچوں کا عالمی دن قرار دیا۔
بچوں کا عالمی دن ہر سال 20 نومبر کو منانے کیلئے اقوام متحدہ کےبچوں سے متعلق ادارہ یونیسیف ایک خاص عنوان تجویز کرتا ہے جس کا تعلق بچوں کی تعلیم و تربیت اور نشوونما سے ہوتا ہے۔دنیا بھر کے ممالک اقوام متحدہ کے بچوں کےلیے تجویز کردہ عنوان کی روشنی میں پروگرام ترتیب دیتے ہیں اور بچوں کا عالمی دن بڑے جوش و خروش سے مناتے ہیں اس دن کی مناسبت سے بچوں کے حقوق کیلئے سرگرم سماجی تنظیموں کے زیراہتمام سیمینارز، واکس اور دیگر تقریبات کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہر سال 20 نومبر کو بچوں کے عالمی دن منانے سے دنیا بھر میں بچوں کو ان کے حقوق مل جاتے، کم از کم میرا جواب ‘نہیں’ میں ہے۔ آیئے بچوں کے حوالے سے اور بچوں کے عالمی دن کی مناسبت سے کچھ حقیقت پر مبنی باتیں کرتے ہیں۔
Poor Children
یونیسیف کی اس سال جون میں شایع ہونے والی سالانہ رپورٹ کے مطابق غریب بچوں کے پانچ برس کی عمر تک پہنچنے سے قبل مرنے کے امکانات متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے بچوں سے دوگنے ہیں اور 2030 تک کروڑوں بچے ایسی بیماریوں سے مرسکتے ہیں جن سے بچا جا سکتا ہے۔جبکہ بڑھتی ہوئی عدم مساوات کے باعث غریب لڑکیوں کی کم عمری میں شادی کے امکانات دو گنے سے بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ کئی دہائیوں سے کم عمر بچیوں کی شادیوں کی شرح میں کوئی کمی نہیں ہوئی۔ اس وقت پوری دینا میں عام بچوں کے علاہ مہاجرین یا تارکین بچوں کی ایک کثیر تعداد موجود ہے۔ یونیسیف کی سالانہ رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا میں قریب 124 ملین بچے ایسے ہیں جو پرائمری یا لوئر سیکنڈری اسکول نہیں جاتے۔ یونیسیف کی سالانہ رپورٹ میں کہا گیا کہ اگرچہ گزشتہ پچیس برسوں کے دوران بچوں کی تعلیم اور صحت کے حوالے سے ’زبردست پیشرفت‘ ہوئی ہے تاہم اس پیشرفت کی تقسیم مساوی نہیں تھی۔ اُنہوں نے کہا کہ اگر دنیا کے ہر غریب بچے تک پہنچنے میں کامیابی نہ ہوئی تو اگلے پندرہ برسوں کے دوران 5 سال سے کم عمر کے 69ملین بچے ایسی بیماریوں کے باعث موت کے منہ میں چلے جائیں گے، جن کا آسانی سے علاج ہو سکتا ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق دنیا کے چھ لاکھ مہاجر بچوں میں سے تین اعشاریہ سات ملین بچے ایسے ہیں جو اسکول جانے اور تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہیں۔ نصف سے بھی کم تعداد اسکولوں میں تعلیم حاصل کررہی ہے ۔ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کے مختلف علاقوں میں ہونے والی جنگوں اور تشدد آمیز واقعات میں امریکہ‘ یورپ اور اسرائیلی ریاست کے ہاتھ واضح طور پر دکھائے دیتے ہیں اور زیادہ تر بچے اور نوجوان ان ہی جنگوں میں ہلاکت اور تشدد کا شکار ہوئے ہیں۔ عراق اور افغانستان‘ لبنان‘ صومالی‘ یمن‘ سوڈان اور لیبیا کی جنگوں میں بچوں کی وسیع پیمانے پر ہونے والی ہلاکتیں اور تشدد اس حقیقت کی تصدیق ہیں۔جبکہ دنیا بھر میں ہر سال 27 کروڑ 50 لاکھ سے زائد بچوں کو گھریلو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ صرف امریکہ اور بحرالکاہل کے خطوں میں سالانہ 60 لاکھ بچے تشدد کا شکار ہوتے ہیں۔ ایک غیرسرکاری رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر دس میں سے ایک بچہ جارحیت کا شکار ہوتا ہے۔
سال 2014 میں وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئےمرحوم عبدالستار ایدھی نے کہا تھا کہ ‘بچوں کا عالمی دن منانے سے اس سے بڑھ کر اور کچھ نہیں ہوتا کہ لوگوں میں آگہی پیدا ہو۔ لیکن بچوں کے حقوق پورے کرنے کے لئے ہر دن کام کرنے کی ضرورت ہے’۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان میں بھی بچوں کی فلاح و بہبود کیلئے کام ہورہا ہے یا یہ سلسلہ صرف تقریروں تک ہی محدود رہتا ہے؟کیا ہم بچوں کو ان کی صحت اور تفریح کی بنیادی سہولتیں مہیا کررہے ہیں یاصرف انہیں ’’لالی پاپ‘‘ دی جارہی ہے؟ کیا ہم چائلڈ لیبر کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں؟ ترقی یافتہ ممالک میں زیر تعلیم بچوں سے مار پیٹ یا ڈانٹ ڈپٹ سے کام نہیں لیا جاتا کیا ہمارے ہاں بھی یہی صورت حال ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جو اس وقت تک ہوتے رہینگے جب تک بچوں کو بنیادی سہولتیں مہیا نہیں کی جاتیں۔حقیقت یہ کہ ہمارے ملک میں بچوں کے حقوق پورے نہیں ہو رہے ہیں۔
Child Labour
آج بچے دہشت گردی اور جرائم کا شکار ہو رہے ہیں۔ بچوں کو خوراک، چھت، تعلیم و تربیت اور تحفظ جیسے بنیادی حقوق سے بھی محروم رکھاجاتا ہے۔بچے پھول کی مانند ہوتے ہیں ان سے محبت سے پیش آناچاہئے، کیا پاکستان کی ریاست اور عوام اس قیمتی سرمائے کی قدر وقیمت سے واقف ہیں؟ اور ان کے بنیادی حقوق پور ے کر رہے ہیں؟ گھروں، ہوٹلوں اور دیگر کاروباری مراکز میں کام کرنے والے مجبوراورمظلوم بچوں سے عام لوگ کیسا سلوک کرتے ہیں؟ سڑکوں پرگاڑی صاف کرنے، کوڑا کرکٹ اٹھانے والے اور بھیک مانگنے والے بچو ں کی غذا، صحت اورپڑھائی کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟کیا حکومت ان ذمہ داریوں کےلیے کچھ کررہی ہے؟ جواب صرف اور صرف ‘نہیں’ہے۔
ہیومن رایٹس کمیشن پاکستان کی 2014 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں تیس فیصد بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔ یونیسیف کی 2015کی جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق ہر چودہ میں سے ایک پاکستانی بچہ اپنی پہلی سالگرہ منانے سے پہلے ہی فوت ہوجاتا ہے، ہر گیارہواں بچہ اپنی زندگی کے پانچ سال مکمل ہونے سے پہلے ہی موت کی آغوش میں چلا جاتا ہے۔ پاکستانی ذرائع ابلاغ نے رواں سال فروری میں ایک حکومتی رپورٹ شائع کی تھی، جس کے مطابق ملک میں تقریباﹰ 24 ملین بچے اسکول نہیں جاتے۔ آئی ایل او کے ایک سروے کے مطابق پاکستان میں چائلڈ لیبر و جبری مشقت کے شکار بچوں کی تعداد 2014 میں 168ملین تھی۔ بچے قوم کا قیمتی سرمایہ ہیں، بچپن سے ہی اگر بچوں کی حوصلہ افزائی کی جائے تو یقینا ان کا مستقبل روشن ہوگا اور اگر بچپن ہی سے مارپیٹ اور ڈانٹ ڈپٹ کی جائے تو بچوں کی نہ صرف ذہنی جسمانی نشوونما رک جاتی ہے بلکہ ان کی خود اعتمادی بھی جاتی رہتی ہے۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی وفاقی اور صوبائی حکومتیں سڑکوں اور انڈرپاسز کی تعمیر کے ساتھ ساتھ میٹرو اور اورنج لائن پر کئی سو ارب روپے خرچ کر چکی ہیں، لیکن لاہور میں ایسے سرکاری اسکول بھی ہیں جہاں نہ بیت الخلاء ہے اور نہ ہی پانی دستیاب ہے۔ کئی اسکولوں میں فرنیچر نہیں ہے اوران اسکولوں کی بہت سی عمارتیں مخدوش ہیں۔پاکستان میں بچوں کے عالمی دن کی مناسبت سے، پاکستان کے مختلف ٹی وی چینلز پر ماہرین کی باتیں اور تھر میں بھوک، پیاس، اور غربت سے ہلاک ہونے والے بچوں کی خبریں اور مختلف اداروں کے دعوے، ملک میں پولیو سے معذور ہونے والے بچوں کے اعداد و شمار ساتھ ساتھ چلتے رہے اور مرحوم ایدھی صاحب کی بات بھی سمجھ میں آتی رہی کہ بچوں کے حقوق پورے کرنے کےلیے ہر دن کام کرنے کی ضرورت ہے۔دنیا کے تمام بچوں کےلیے نیک خواہشات کے ساتھ یہ دعا بھی ہے کہ اگلے سال 20 نومبر کو بچوں کا عالمی دن بچوں کے لیے خوشیوں کا تہوار بنکر آئے۔