چین (جیوڈیسک) چین نے افغان حکومت کو طالبان کے ساتھ بات چیت کے عمل کو دوبارہ شروع کرنے کے لیے ایک فورم بنانے اور تعاون کی پیش کی ہے۔
افغان حکام سے حاصل ہونے والی دستاویزات کے مطابق چین نے امن اور مفاہمت فورم کے قیام کی تجویز افغان حکومت کو دی ہے۔ جس میں افغانستان، پاکستان، چین اور طالبان کے نمائندے شامل ہوں گے، افغان حکام کے مطابق اس منصوبے پر ترکی کے شہر استنبول میں افغانستان کے مستقبل سے متعلق ہونے والی کانفرنس میں بھی تبادلہ خیال کیا گیا، چین کے اس منصوبے کا افغان حکومت نے باقاعدہ اعلان نہیں کیا ہے کیونکہ افغان صدر اشرف غنی اس بات کا جائزہ لے رہے ہیں کہ آیا پاکستان اور طالبان اس منصوبے کا حصہ بننے کے خواہش مند ہیں یا نہیں، افغان صدر کے مشیر داود سلطان زئی کا کہنا ہے کہ چین کا یہ بہت ہی اہم اقدام ہے تاہم اس کے لیے ضروری ہے کہ تمام فریق متفق ہوں۔
چین کا کہنا کہ وہ وہ افغانستان میں امریکا کے جانے کے بعد اس کی جگہ پر کرنے کی کوشش نہیں کر رہا کیونکہ چین پہلے سے ہی اففغانستان میں منشیات کی روک تھا م، تیل اور کاپر کے ذخارئر کی تلاش کے لیے مالی اور انسانی وسائل فراہم کر رہا ہے۔ افغانستان میں موجود سینئر سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ چین کی جانب سے ثالثی کی پیشکش پہلی دفعہ افغان صدر کے دورہ چین کے موقع پر سامنے آئی تھی۔ دورہ چین کے دوران افغان صدر کے ساتھ موجود افغان حکام کا کہنا تھا کہ چین نے واضح کیا ہے کہ اگر افغان حکومت تیار ہو تو وہ طالبان اور افغان حکومت کو اپنی سرزمین پر بلانے کے لیے تیار ہے۔ حکام کا کہنا تھا کہ وہ پاکستان کی جانب سے مزید عوامی حمایت چاہتا ہے اور چین کی ثالث کی حیث سے آنے سے انہیں پاکستان سے زیادہ عوامی حمایت حاصل ہو سکتی ہے۔
چینی حکومت نے اس رپورٹ پر تبصرہ کرنے سے انکار کردیا ہے تاہم افغانستان میں چینی سفیر نے رواں ہفتے کابل میں ہونے والی امن کانفرنس میں افغانستان میں امن کے قیام کی کوششوں میں چین کی بھر پور حمایت پر زور دیا تھا۔ پاکستان نے رپورٹ کے حوالے سے کہا ہے کہ وہ چین سمیت دیگر ممالک کے ساتھ خطے میں امن کی کوششوں میں ساتھ دینے کےلیے تیار ہے تاہم منصوبے کی مزید تفصیلات کا واضح ہونا ضروری ہے۔ طالبان ترجمان نے رپورٹ پر تبصرہ کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پہلے طالبان قیادت اس پرغور کرے گی پھر ہی کوئی فیصلہ کیا جائے گا۔