امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) وائٹ ہاؤس نے بدھ کو کہا ہے کہ صدر جو بائیڈن کو امریکا کےجوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل مارک ملی پر ’مکمل اعتماد‘ ہے۔
امریکی میڈیا میں شائع ہونے والی خبروں میں بتایا گیا ہے کہ جوائنٹ چیفس آف سٹاف جنرل مارک ملی نے اپنے چینی ہم منصب سے دو بار در پردہ ٹیلیفون پر رابطہ کیا تھا جس میں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے چین کے ساتھ جنگ شروع کرنے کے خدشات کا اظہار کیا تھا۔
صحافی باب ووڈورڈ اور رابرٹ کوسٹا کی مشترکہ کتاب “ڈینجر” میں شائع رپورٹس پر جو بائیڈن کے چین سے رابطوں سے متعلق موقف پر وائٹ ہاؤس کی ترجمان جین ساکی نے کہا کہ میں اس بات کی تصدیق کر سکتی ہوں کہ صدر جو بائیڈن جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل ملی کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ ملی جوائنٹ چیفس آف سٹاف کے سربراہ کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ وہ آٹھ ماہ سے صدر بائیڈن کی صدارت میں ان کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے متعدد بین الاقوامی تقریبات میں صدر کے ساتھ کام کیا ہے۔ صدر کو جنرل مارک ملی کی قیادت، حب الوطنی اور امریکی آئین سے وفاداری کا مکمل بھروسہ ہے۔
ساکی نے کتاب [ڈینجر] پر تاریخی تناظر میں نظر ڈالنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر الزام لگایا کہ وہ چھ جنوری کو کیپیٹل ہل کی عمارت میں اپنے حامیوں کو ہنگامہ آرائی اور بغاوت پر اکسا رہے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کتاب میں ٹرمپ کی حیثیت اور قومی سلامتی کے معاملات کی نگرانی کے لیے ان کی اہلیت کے بارے میں سابق انتظامیہ کے سینیر عہدیداروں کے شکوک و شبہات بھی شامل ہیں۔
بدھ کے روز جوائنٹ چیفس آف سٹاف کے چیئرمین جنرل مارک ملی کے دفتر نے ان کے چینی عہدیداروں سے رابطوں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ملی نے سرکاری سویلین رہ نماؤں سے چھپ کر چین کے ساتھ خفیہ رابطے نہیں کیے۔
ملی کے ترجمان کرنل ڈیو بٹلر نے کہا کہ چیفس آف اسٹاف کے اپنے ہم منصبوں کے ساتھ تمام رابطہ کاری بشمول جن کا ذکر کیا گیا ہے عملے کی موجودگی میں وزارت دفاع کے ساتھ ہم آہنگی، رابطے اور متعلقہ ایجنسیوں کے علم میں ہوئے ہیں۔
بٹلر نے مزید کہا کہ جنرل ملی فوج کے سویلین کنٹرول اور اس کے آئینی حلف کی قانونی روایت کے تحت اپنے اختیار میں کام اور مشورے جاری رکھے ہوئے ہے۔
بٹلر نے کہا کہ اکتوبر اور جنوری میں چینی اور دیگر کے ساتھ ملی کے رابطے ان فرائض اور ذمہ داریوں کا حصہ تھے جو انہیں امریکا کے اسٹریٹجک استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے پوری کرنا تھیں۔
امریکی اخبار “دی ہل” کے مطابق یہ رابطے امریکا کے قومی سلامتی کے مفادات کی باہمی تفہیم کو بہتر بنانے، کشیدگی کم کرنے، وضاحت فراہم کرنے اور غیر ارادی نتائج سے بچنے کے لیے ضروری تھے۔
امریکی اخبار ’’واشنگٹن پوسٹ ‘‘ کے مطابق ’ڈینجر‘ [خطرہ] کے اقتباسات میں کہا گیا ہے کہ ملی نے چین میں جوائنٹ چیفس آف سٹاف کے چیئرمین جنرل لی ژوقنگ کو یقین دہانی کرانے کے لیے دو بار انہیں فون کال کی تھی۔ ان کالوں میں انہوں نے چینی عہدیدار سے کہا تھا کہ امریکا مستحکم ہے اور وہ چین پر حملہ نہیں کرے گا۔ تاہم اگر حملہ کرنے کی کوئی وجہ ہوئی تو وہ چینی ہم منصب کو قبل از وقت مطلع کریں گے۔
ٹرمپ نے منگل کے روز ایک بیان میں اس پوری کہانی پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ کہانی ’گھڑی گئی‘ ہے۔ اگر یہ سچ ہے تو ملی کے خلاف غداری کا مقدمہ چلایا جائے۔ان کا کہنا تھا کہ تاریخ گواہ ہے کہ میں کبھی چین پر حملہ کرنے پر غور نہیں کیا۔
ریپبلکن سینیٹر مارکو روبیو نے امریکی صدر جو بائیڈن سے مطالبہ کیا کہ وہ اس خبر پر جنرل مارک ملی کو برطرف کریں۔
بائیڈن کو لکھے گئے ایک خط میں روبیو نے کہا کہ جنرل مارک ملی نے کمانڈر انچیف کو کمزور کرنے کے لیے فعال طور پر کام کیا اور عوامی جمہوریہ چین کے ساتھ کسی بھی ممکنہ تصادم کے حوالے سے چین کی کمیونسٹ پارٹی کو خفیہ معلومات دے کر سوچی سمجھی خیانت کا ارتکاب کیا ہے۔
روبیو نےکہا کہ جنرل ملی کے یہ اقدامات ان کی ٹھوس رائے کے واضح فقدان کا ثبوت ہیں۔ انہوں نے صدر بائیڈن سے مطالبہ کیا کہ انہیں فوری طور پر برخاست کریں۔