واشنگٹن (اصل میڈیا ڈیسک) امریکہ کے مطابق روس نے یوکرین جنگ میں چین سے فوجی مدد طلب کر لی ہے اور چین نے اس کا جواب اثبات میں دیا ہے۔ دوسری جانب چین اور روس دونوں نے ہی اس خبر کی تردید کی ہے۔ لیکن کیا چین روس کی مدد کرنے کا خطرہ مول لے سکتا ہے؟
چین نے امریکی دعوے کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ ‘غط معلومات‘ پھیلا رہا ہے۔ لیکن اس کے باوجود چین اور روس کے درمیان تعاون کے حوالے سے قیاس آرائیاں جاری ہیں۔ چین نے حال ہی میں روس کو ‘اپنا اہم ترین اسٹریٹیجک ساتھی‘ قرار دیا تھا۔ سوال یہ پوچھا جا رہا ہے کہ چین اپنے اس دوست ملک کی مدد کے لیے کتنا آگے جا سکتا ہے؟ امریکہ نے کیا کہا ہے؟
واشنگٹن پوسٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق روس نے چین سے فوجی مدد طلب کی ہے۔ ایک امریکی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ چین نے مثبت اشارہ دیا ہے۔ ابتدائی اندازوں کے مطابق یوکرین جنگ میں بیجنگ فوجی مدد فراہم کرنے کے لیے تیار ہو گا اور روس پر مغرب کی مسلط کردہ شدید پابندیوں کے توڑ کے لیے معاشی حمایت بھی فراہم کرے گا۔ روس نے ایسی خبروں کی تردید کی ہے لیکن اس کے باوجود پیر کو روم میں ہونے والی میٹنگ میں امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے چینی خارجہ پالیسی کے سینئر مشیر یانگ جیچی کو اس طرح کی حمایت فراہم کرنے کے خلاف خبردار کیا ہے۔
امریکہ چینی حکومت کے ارادوں سے ہوشیار رہنا چاہتا ہے اور وجہ یہ ہے کہ صدر شی جن پنگ نے روسی حملے پر تنقید کرنے یا اس کی مذمت کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ انہوں نے یہ کہتے ہوئے دوری اختیار کر لی تھی کہ مذاکرات کے ذریعے معاملات حل ہونے چاہئیں اور قومی سرحدوں کا احترام کیا جانا چاہیے۔ چین کونسی امداد فراہم کر سکتا ہے؟
ماہرین کے مطابق چین جنگی جہاز یا ٹینک تو فراہم نہیں کرے گا لیکن بندوقوں کی گولیاں اور کھانے جیسی چھوٹی اشیاء فراہم کر سکتا ہے۔ سابق امریکی محکمہ دفاع کے اہلکار اور اب سنگاپور کے ‘لی کوان یو سکول آف پبلک پالیسی‘ سے وابستہ ڈریو تھامسن کا اس حوالے سے کہنا تھا، ” شاید چین اس تنازعے کے وسط میں ہائی پروفائل ہتھیاروں کی روس کو فروخت سے بچنا چاہتا ہے۔ اس طرح بیجنگ پر بین الاقوامی پابندیاں عائد ہو سکتی ہیں۔‘‘
تھامسن کا مزید کہنا تھا کہ بیجنگ اسپیئر پارٹس، استعمال کی اشیاء، گولہ بارود اور دوہری استعمال کی اشیاء فراہم کرنے کے لیے زیادہ تیار ہو گا کیوں کہ اس طرح پابندیوں کی خلاف ورزی بھی نہیں ہو گی اور وہ بین الاقوامی انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بننے سے بچا رہے گا۔
مثال کے طور پر روسی ہیلی کاپٹر اسٹنگر جیسے پورٹیبل اور مختصر فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کا مقابلہ کرنے کے لیے فلیئرز (حرارت پیدا کرنے والے شعلے، جو میزائل کا رخ تبدیل کرتے ہیں) استعمال کرتے ہیں۔ تھامسن کے مطابق اگر روسی نظام سے ہم آہنگ ہوں تو چین روس کو ایسے فلیئرز فروخت کر سکتا ہے۔
آسٹریلیا کے لوئی انسٹی ٹیوٹ میں انٹرنیشنل سکیورٹی پروگرام کے ڈائریکٹر سیم روگیوین کہتے ہیں، ”واشنگٹن کے انتباہات کے پیش نظر چین بہت ہی بنیادی قسم کی اشیاء فراہم کرنے میں شامل ہو گا، جیسے کہ فوجیوں کے لیے راشن پیک وغیرہ۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ اتنے مختصر وقت میں چینی ہتھیاروں کو اپنی مسلح افواج میں ضم کرنا روس کے لیے عملی طور پر ناممکن ہے۔ کیا چین ایسا کرے گا؟
چینی اور غیر چینی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ چین کے لیے روس کی فوجی مدد کرنا ناممکن نہیں ہے لیکن بہت سے عوامل ایسے ہیں کہ چین ایسا کچھ کرنے سے گریزاں ہی رہے گا۔
بیجنگ کی رینمن یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر شی ین ہونگ کہتے ہیں، ”چین بہت محتاط رہے گا اور اپنی کسی ایسی امداد سے بچنے کی پوری کوشش کرے گا، جو یوکرین کے میدان جنگ میں استعمال ہو۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ”چین کا یوکرین میں روسی کارروائیوں میں مدد فراہم کرنے کا کوئی مقصد نہیں ہے۔‘‘
روگیوین بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ یوکرین میں روس کی مدد کرنے میں چین کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ایک کمزور روس چین کو اسٹریٹیجک اور اقتصادی فوائد دے سکتا ہے۔
ڈریو تھامسن کے مطابق چین کبھی بھی یہ نہیں چاہے گا کہ اس کی مدد سے یہ تنازعہ طویل ہو لہذا اس کی ہر مدد ‘ناپ تول کر اور پیمانہ بند‘ ہو گی۔