برلن (اصل میڈیا ڈیسک) جرمنی کی نئی ممکنہ وزیر خارجہ انالینا بیئربوک نے بیجنگ کے خلاف سخت مؤقف اختیار کرنے پر زور دیا ہے۔ اس پر برلن میں چینی سفارت خانے کا ردعمل، ’’دنیا کو دیواریں بنانے والوں کے بجائے، پل تعمیر کرنے والوں کی ضرورت ہے۔‘‘
جرمنی کی گرین پارٹی کی مشترکہ سربراہ اور ممکنہ طور پر نئی مخلوط حکومت میں وزیر خارجہ کا منصب سنبھالنے والی انالینا بیئربوک نے جرمن روزنامہ ‘دی ٹاگیس سائٹنگ‘ کو دیے گئے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں بیجنگ کے خلاف سخت موقف اختیار کرنے پر زور دیا ہے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ آمرانہ نظام کے تحت کام کرنے والی ریاستوں، جیسے کہ ایشیا کی بڑی طاقتوں کو لگام دینے کی ضرورت ہے۔ انالینا بیئربوک نے کہا کہ درآمدی پابندیوں کو یورپی سطح پر فائدہ اٹھانے کے طور پر استعمال کیا جانا چاہیے، جو بیجنگ کے لیے ایک ‘بڑا مسئلہ‘ ہوگا۔
انالینا بیئربوک کے اس موقف نے جرمنی کی نئی مخلوط حکومت کی پالیسی میں نمایاں تبدیلی کی جانب اشارہ دیا ہے۔ بیئربوک کے مطابق چین کے ساتھ جرمنی کی شکایات کو واضح طور پر دور کیا جانا چاہیے۔ ان کے بقول، ”میرے لیے اقدار پر مبنی خارجہ پالیسی ہمیشہ بات چیت اور سختی کا باہمی عمل ہے۔‘‘
تاہم آنے والی جرمن وزیر خارجہ نے جلد سبکدوش ہونے والی چانسلر میرکل کی چین سے متعلق پالیسی پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ بات چیت بین الاقوامی سیاست کا ایک مرکزی جز ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اہم موضوعات پر ٹال مٹول کر کے بات کی جائے یا پھر خاموش رہا جائے۔
بیئربوک نے یہ بات چین پر عائد انسانی حقوق کی متعدد خلاف ورزیوں کے زمرے میں کہی، جس میں چین کے شمال مشرقی صوبے سنکیانگ کے علاقے میں تقریباً 10 لاکھ ایغور مسلمانوں کو حراست میں لینا بھی شامل ہے۔
نٹرویو کے دوران بیئربوک نے تجویز پیش کی کہ یورپی یونین کی طرف سے نافذ کردہ درآمدی پابندیوں کو بیجنگ پر دباؤ ڈالنے کے لیے ایک آلے کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے، ”چین جیسے برآمد کرنے والے ملک کے لیے یہ ایک بڑا مسئلہ ہو گا۔‘‘
جرمن روزنامہ کے ساتھ انٹرویو میں دیے گئے اس انتباہی بیان پر برلن میں قائم چینی ایمبیسی نے شدید خفگی ظاہر کی ہے۔ چینی سفارتخانے کی جانب سے جاری کردہ بیان میں انفرادی جرمن سیاستدانوں سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ ‘چین جرمن تعلقات کو غیرجانبدار اور جامع انداز میں دیکھیں‘ اور ‘اپنی توانائی کو دونوں فریقین کے درمیان تعاون کو فروغ دینے‘ کے لیے وقف کریں۔
اس کے علاوہ بیان میں ‘دیوار کھڑی کرنے والوں کے بجائے پل تعمیر کرنے والوں‘ کا کردار ادا کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ چینی سفارت خانے نے بیان میں مزید کہا، ”چین جرمنی کی نئی وفاقی حکومت کے ساتھ ملاقات کے لیے تیار ہے، باہمی احترام، مساوات اور باہمی فائدے کی بنیاد پر اپنے مشترکہ مفادات کو فروغ دینے کے لیے، تاکہ تعلقات کو اچھی اور مستحکم راہ پر گامزن کیا جا سکے۔‘‘
عالمی سطح پر اقتصادی اور عسکری اثرورسوخ بڑھانے کی دوڑ کے پیش نظر امریکا نے (سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں) چین کے ساتھ تجارتی جنگ شروع کر دی تھی۔ تاہم اس دوران جرمنی نے اس مسابقت سے کنارہ کشی اختیار کر رکھی تھی۔
سبکدوش ہونے والی جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی انتظامیہ پر اس حوالے سے بھی تنقید کی جاتی ہے کہ وہ بیجنگ کے ساتھ کاروباری تعلقات کو ترجیح دیتی ہیں اور اس کے انسانی حقوق کے ریکارڈ پر آنکھیں بند کیے ہوئے ہے۔ اس حکمت عملی سے چین کو جرمنی کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار بننے میں مدد ملی ہے۔
دوسری طرف جرمنی کی کاروباری برادری کئی دہائیوں سے امید کر رہی ہے کہ چین بین الاقوامی کمپنیوں کے لیے اپنی مارکیٹ کھولے گا۔ تاہم صدر شی جن پنگ کی پالیسیاں ملک کو مخالف سمت میں گامزن کرتی دکھائی دیتی ہیں۔
ہانگ کانگ میں جمہوریت کے حامی مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن، سنکیانگ کے حراستی کیمپس اور تائیوان کے خلاف بیجنگ کی فوجی دھمکیوں نے جرمنی میں چین کی بڑھتی ہوئی آمرانہ پالیسیوں کے خلاف زیادہ سخت ردعمل اختیار کرنے کو تقویت دی ہے۔