اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) پاکستان میں چند سیاسی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ چین و بھارت کے مابین تازہ کشیدگی خطے میں نئی اسٹریٹیجک صف بندی کی عکاسی کرتی ہے اور کچھ کا یہ بھی دعوی ہے کہ اس سے پاکستان کے لیے سفارتی سطح پر آسانیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔
آبادی کے لحاظ سے دنیا کے ان دو بڑے ممالک کے مابین تازہ کشیدگی کچھ ہفتوں سے جاری ہے۔ ایک تازہ جھڑپ میں بھارت کے بیس فوجی ہلاک ہوئے ہیں۔ ان ہلاکتوں کی وجہ سے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے حامل ملک میں حکومتی اکابرین پر تنقید کا ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ اسلام آباد حکومت نہ صرف سرحدی علاقے میں کشیدگی پر نظر رکھے ہوئے ہے بلکہ وہ تنقیدی طوفان کا بھی بغور جائرہ لے رہی ہے۔
پاکستان میں کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ بیجنگ حکومت انڈو پیسیفک اتحاد میں بھارت کی سرگرمی پر چراغ پا ہے اور ان سرگرمیوں کو اشتراکی ملک اپنے مفادات کے خلاف سمجھتا ہے۔ معروف دفاعی تجزیہ نگار میجر جنرل ریٹائرڈ اعجاز اعوان کے خیال میں یہ کشیدگی نئی اسٹریٹیجک صف بندی کی عکاس ہے اور پاکستان بھی اس صف بندی کا حصہ ہے۔ ”ایک طرف امریکا، آسٹریلیا، جاپان اور بھارت ہیں، جو چین کا اسٹریٹ آف ملاکا میں راستہ بندکرنا چاہتے ہیں اور اس لیے مشکلات کھڑی کر رہے ہیں۔ دوسری طرف پاکستان، نیپال، چین، بھوٹان اور خطے کے دوسرے ممالک ہیں۔ چین نہ صرف ان مشکلات کا خاتمہ چاہتا ہے بلکہ وہ بحرانی صورت میں متبادل روٹ بھی چاہتا ہے، جو اسے پاکستان سی پیک کی شکل میں فراہم کر سکتا ہے۔ تو اسٹریٹیجک سطح پر پاکستان اور چین کے درمیان تعلقات پہلے ہیں مضبوط تھے لیکن لداخ میں کشیدگی کی وجہ سے دونوں کے مفادات بہت حد تک ایک جیسے ہو گئے ہیں، جس کی وجہ سے ان کے اسٹریٹیجک تعلقات میں مزید گرم جوشی پیدا ہوگی۔
میجر جنرل ریٹائرڈ اعجاز اعوان کا کہنا تھا کہ اس صورت حال سے پاکستان کو فائدہ ہوا ہے۔ ”پاکستان سفارتی سطح پر بھوٹان، نیپال اور چین کے ساتھ مل کر بھارت کو خطے میں تنہا کر سکتا ہے جب کہ چین سے قریبی تعلقات رکھنے والے ممالک کے ساتھ لابی کر کے بین الاقوامی سطح پر بھی وہ بھارت پر دباو ڈال سکتا ہے کہ وہ کشمیر کی سابقہ حیثیت بحال کرے۔ اگر نئی دہلی حکومت حوش کے ناخن نہیں لیتی، تو چین اور پاکستان مل کر کشمیر میں بھارت کے لیے بہت سی مشکلات پیدا کر سکتے ہیں۔
کئی ناقدین کا خیال ہے کہ کشمیر کی حیثیت تبدیل ہونے پر بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں رہنے والے کشمیری بہت مایوس ہیں۔ پاکستان سمیت دیگر مسلم ممالک اس بھارتی اقدام پر کوئی خاطر خواہ قدم نہیں اٹھا سکے لیکن اب صورت حال مختلف ہوتی جا رہی ہے۔ اسلام آباد کی نیشنل یونیورسٹی برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے ادارہ برائے عالمی امن و استحکام سے وابستہ ڈاکٹر بکارے نجم الدین کا کہنا ہے کہ پاکستان موجودہ صورت حال میں بھارت پر کشمیر کی پرانی حیثیت بحال کرانے کے لیے دباو ڈال سکتا ہے۔ ”پہلے پاکستان ہی صرف کشمیر کی خصوصی حیثیت کی بحالی کے لیے آواز اٹھا رہا تھا لیکن اب چین بھی یہی مطالبہ کر رہا ہے۔ اس وقت اسلام آباد کی پہلی ترجیح یہ ہی نظر آتی ہے کہ کشمیر کی خصوصی حیثیت بحال کی جائے تاکہ کشمیریوں میں پائی جانے والی مایوسی کو کم کیا جا سکے۔ اسلام آباد کی کوشش ہے کہ چین اس کے ساتھ اس مطالبے کی شدت میں اضافہ کرے تاکہ بھارت پر دباو بڑھے۔
ان کا کہنا تھا کہ چین کے ساتھ کشیدگی کے بعد بھارت کی طرف سے پاکستان کے خلاف ممکنہ طور پر ہونے والی مہم جوئی کا بھی امکان کم ہوا ہے۔ ”اسلام آباد میں گزشتہ برس سے یہ خدشہ پایا جاتا تھا کہ بھارت کسی وقت بھی کوئی مہم جوئی کر سکتا ہے لیکن موجودہ حالات میں اب اس کا امکان کم ہوا ہے کیونکہ نئی دہلی دونوں اطراف کی سرحدوں پر بیک وقت جنگ نہیں چھیڑ سکتا۔ ایسی کسی ممکنہ جنگ سے اسے خطرناک نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ تو پاکستان کے خلاف ہونے والی ممکنہ مہم جوئی کے آثار اب کم ہوئے ہیں۔
کراچی یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کی سابق سربراہ ڈاکٹر طلعت اے وزارت کا کہنا ہے کہ موجودہ صورت حال میں بھارت کو یہ خوف لاحق ہوگیا ہے کہ کہیں چین اور پاکستان نے مشترکہ طور پر اس کے خلاف کوئی منصوبہ تو نہیں بنایا ہوا۔ ”تو ایسی صورت میں عقل کا تقاضہ یہی ہے کہ بھارت کوئی غیر منطقی مہم جوئی نہ کرے لیکن وزیر اعظم نریندر مودی کی پالیسیاں بعض اوقات منطق سے بالاتر ہوتی ہیں۔ بہر حال اسلام آباد کی یہ ترجیح لگتی ہے کہ وہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو بحال کرائے اور اس میں چین کی مدد کو بھی استعمال کرے۔ میرا خیال ہے کہ انہیں پہلے مرحلے میں ایسا ہی کرنا چاہیے لیکن دوسرے مرحلے میں کشمیر کے مستقل حل کی طرف جانا چاہیے۔