تحریر: علی عمران شاہین رمضان المبارک کے دوسرے عشرے میں بہاولپور کے علاقہ شاہی والا میں جانا ہوا تو ایک نوجوان ڈاکٹر فیصل شاہ سے ملاقات ہوئی۔ پتہ چلا کہ ڈاکٹر فیصل شاہ حال ہی میں چین سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری مکمل کر کے پاکستان آئے ہیں اور وکٹوریہ ہسپتال بہاولپور میں خدمات کے ساتھ اپنے والد کے قائم کردہ ذاتی ہسپتال میں بھی کام کر رہے ہیں۔ ماہ رمضان المبارک اور چین کا نام سن کر ماٹھاٹھنکا تو میں نے سوال کیا، رمضان المبارک کے آغاز کے ساتھ ہی خبریں سننے کو ملی تھیں کہ چین میں مسلمانوں کے روزہ رکھنے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ ایسی خبریں ہم پہلے بھی کئی سال سے سن رہے ہیں، ان میں کیا حقیقت ہے؟ اس پر انہوں نے جو چند باتیں بتائیں، وہ نہایت چشم کشا تھیں۔ کہنے لگے کہ چینی حکومت تو خود مساجد کی تعمیر اور ان کے حوالے سے مختلف انتظام و انصرام کرتی ہے۔
روزے پر پابندی توکجا، مسلم اکثریتی علاقے میں تو چین کے غیرمسلم بھی روزے کا احترام کرتے ہیں اور بہت سے دکاندار تو صبح سے شام تک اسی احترام میں اشیائے خورونوش کی فروخت تک بند کر دیتے ہیں۔ حکومت کی تو حتی الوسع کوشش ہوتی ہے کہ چینی مسلمانوں کے جذبات کو کسی لحاظ سے ٹھیس نہ پہنچے، انہیں کوئی تکلیف نہ آئے۔ اس کی اور کیا مثال ہو گی کہ چین نے اپنے لوگوں پر پابندی عائد کر رکھی ہے کہ وہ صرف ایک بچہ پیدا کر سکتے ہیں (کچھ صوبوں میں یہ اجازت 2 تک ہے) خلاف ورزی پر سخت سزا ہے، لیکن مسلمانوںپرایسی کوئی پابندی نہیں۔ان کے جتنے بھی بچے ہوں، انہیںکوئی نہیں پوچھتا۔ میں نے خود ایسے مسلم خاندان دیکھے کہ جن کے دس دس بچے تھے۔ چین میں کسی کو کوئی ہتھیار رکھنے کی اجازت نہیں لیکن مسلمانوں کو اجازت ہے کہ وہ خنجر اور تلواریں رکھ سکتے ہیں۔ انہیں ملازمتوں کے برابر حقوق اور کاروبار کی مکمل آزادی ہے۔ پھر یہ مسلمانوں کے حوالے سے خبروں کی کہانی کیا ہے…؟ اس پر وہ گویا ہوئے کہ چین میں بھی مسلمانوں کا ایک گروہ تحریک طالبان پاکستان کی طرز پر فکر رکھنے والا موجود ہے جن کا کام فتنہ و فساد پھیلانا ہے۔ . چینی لوگ اور پولیس ان سے اس قدر پریشان اور خائف ہیں کہ جیسے ہی ٹرین مسلم اکثریتی علاقے سنکیانگ (کاشغر) میں داخل ہوتی ہے، پولیس ہاتھ کھڑے کر دیتی ہے کہ اب ان کی سکیورٹی کی ذمہ داری ختم ہے، ہر شخص اپنا خود ہی ذمہ دار ہو گا۔ عام چینی شہری ان مسلمان کی شکل و شباہت دیکھتے ہی اپنی سیٹیں چھوڑ کر ان کے لئے خالی کر کے خود کھڑے ہو جاتے ہیں کہ کہیں جان ہی نہ چلی جائے… یعنی ان گنتی کے دہشت گردوں نے خوف کا ایسا ماحول پیدا کر رکھا ہے کہ سبھی بے بس ہیں۔ انہی لوگوں نے کئی بار چاقوئوں اور خنجروں سے پولیس تھانوں اور سکیورٹی فورسز پر حملے کر کے بہت خون خرابہ کیا جس پر حکومت کو قیام امن کے لئے سخت اقدامات اٹھانے پڑے۔ایسے ”مسلمانوں” کو یہاں ”اُگرے” کہا جاتا ہے۔ میں نے یہ باتیں اور صرف ڈاکٹر فیصل ہی نہیں، اور بھی کتنے چین یاترا کرنے والے لوگوں سے پوچھی اور سنی ہیں۔ یہ باتیں آج اس وقت یاد آ رہی ہیں جب عالمی شہرت یافتہ امریکی میگزین نیوز ویک نے تازہ ترین رپورٹ میں بتایا ہے کہ” چینی نوجوانوں میں مقبول ترین مذہب اسلام ہے۔
Muslims
رپورٹ میں کئی حقائق کو توڑا مروڑ کر بھی اسلام کی حقانیت تسلیم کی گئی ہے۔ رپورٹ میں الزام تراشی کے ساتھ ماناگیا کہ حکومت کے رمضان میں کریک ڈائون اور مسلم اور اقلیت پر تاریخی ظلم و ستم کے باوجوداسلام چینی نوجوانوں میں مقبول ترین دین ہے۔ بیجنگ کی رینمن یونیورسٹی کے ریسرچ سینٹر کے چین میں مذہب پر سروے کے مطابق لادین ریاست کے تسلیم شدہ پانچ مذاہب میں اسلام 30 سال سے کم عمر نوجوانوں میں مقبول ترین ہے۔ چینی مسلمانوں کی 22.4 فیصد آبادی اسی عمر کی ہے ۔2010 کے پیو ریسرچ سینٹر کے اعداد و شمار کے مطابق چین میں مسلم آبادی تقریباً دو کروڑ 3 3 لاکھ تھی جو کل آبادی کا 1.8 فیصد ہے۔ سینٹر نے2030 تک چین میں 3 کروڑ مسلم آبادی کی پیش گوئی کی تھی۔ نئے اعداد و شمار رمضان میں مسلمانوں پر متنازعہ اقدامات کے نفاذ کے بعد سامنے آئے۔ اگرچہ کمیونسٹ پارٹی نے سنکیانگ صوبے میں اساتذہ، طلبہ اور سرکاری ملازمین پر روزہ رکھنے پر مبینہ طور پرپابندی لگا دی، تاہم چینی حکام نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔ چین میںاسلام کے علاوہ کیتھولک، پروٹسٹنٹ، بدھ مت اور تائو مت سرکاری طور پر تسلیم شدہ مذاہب ہیں۔ مقبولیت میں کیتھولک یہاں دوسرے نمبر پر مذہب ہے۔ بدھ مت اور تائو مت ساٹھ سال سے زائد العمر لوگوں میں مقبول ہے۔
سروے کے مطابق مجموعی طور پر چین میں بدھ مت پیروکاروں کی سب سے زیادہ تعداد ہے۔ چین میں مسلمان آبادی کی سب سے زیادہ شرح پیدائش ہے۔ ” اسی روز چین سے آنے والی دوسری خبر سنئے۔ ”سنکیانگ کے یغور مسلمانوں کا کہنا ہے کہ وہ پوری آزادی کے ساتھ روزے رکھ رہے ہیں۔ ارومچی اسلامک انسٹی ٹیوٹ میں چین کی سرکاری خبررساں ایجنسی ژنہوا سے گفتگو میں سو سے زائد علماء اور روزہ داروں کا کہنا تھا کہ رمضان میں لوگ پانچوں وقت کی نماز اور دیگر عبادات بھی ادا کر رہے ہیں۔ عالم دین و پورولیان کا کہنا تھا کہ حکومت ہمارے مذہبی عقائد کا احترام کرنے کے ساتھ تحفظ بھی فراہم کرتی ہے۔ ایسی خبروں میں صداقت نہیں کہ ہم پر کسی قسم کی پابندیاں لگائی گئی ہیں۔ ارومچی اسلامک انسٹی ٹیوٹ کے معلم ابو ذر میسط کا کہنا تھا کہ ہمارا ادارہ مقامی انتظامیہ کے تعاون سے چل رہا ہے اور ہمیں ان کی بھرپور سرپرستی حاصل ہے۔ انسٹی ٹیوٹ کی نئی عمارت کی تعمیر کے لئے حکومت کی جانب سے 25 ایکڑ رقبہ فراہم کیا گیا ہے، جہاں عمارت کی تعمیر کے ساتھ ساتھ ہم فصلیں بھی اگا سکتے ہیں جو زیرتعلیم طلبہ کی غذائی ضروریات پوری کرنے اور مسجد کے اخراجات چلانے کے لئے کافی ہوں گی۔
میسط نے ان خبروں کی واشگاف الفاظ میں تردید کی کہ سنکیانگ کے مسلمان مہاجروں جیسی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ان کے مطابق سنکیانگ میں رنگ و نسل کے تعصب سے بالاتر ہو کر مقامی باشندوں کو نوکریاں دی جاتی ہیں۔ ارومچی کے ایک شہری قمر دین نے بتایا کہ وہ کئی برس قبل حج بیت اللہ کی سعادت بھی حاصل کر چکے ہیں اور یہ کہ حکومت ضعیف العمر زائرین کی بہترین دیکھ بھال کے لئے ڈاکٹروں اور نرسوں کو بھی متعین کرتی ہے۔” یاد رہے کہ چینی زبان میں قرآن کا ترجمہ بھی پڑھا،پڑھایا جاتا ہے اور تقسیم کیا جاتا ہے۔ اسی دن کی چینی مسلمانوں کے حوالے سے تیسری خبر ،تھائی لینڈ نے چند روز قبل اپنے ہاں آنے والے 109 چینی افراد کو ڈی پورٹ کر کے چین کے حوالے کیا ہے۔ یہ لوگ تھائی لینڈ میں مقیم تھے۔ چینی حکومت نے بعد میں بتایا کہ یہ لوگ داعش کا ساتھ دینے کے لئے عراق اورشام جا رہے تھے۔ تھائی لینڈ کے اس اقدام پر سب سے زیادہ تکلیف امریکہ، اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے اداروں کو ہوئی جنہوں نے اسے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے تھائی حکومت کی شدید مذمت کی۔
US and UN
جی ہاں! وہی امریکہ اور اقوام متحدہ جو بذات خود دنیا بھر میں مسلمانوں کے معصوم بچوں کا روزانہ ہزاروں کی تعداد میں بدترین قتل کرتے اور کرواتے ہیں۔ عالم اسلام کی سب سے تعلیم یافتہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو 86 سال کی تو قید سناتے ہیں، اسرائیل کی پشت پر ہمیشہ ہاتھ رکھتے ہیں، کرئہ ارض کے کونے کونے میں دن رات مسلمانوں کی خونریزی کی انہیں کوئی پروا نہیں، البتہ چینی مسلمانوں پر ”ظلم” ان سے برداشت نہیں ہوتا۔ یہ اسی طرز کے چینی مسلمانوں کی سرغنہ عورت ربیعہ قدیر کو اپنے ہاں پناہ اور امداد دشہ بھی دیتے ہیں۔ دنیا بھر میں پھیلا ہوا ان کا ہی میڈیا اسے خوب ہوا دیتا ہے تاکہ مسلمان ایک ایسا نیا محاذ کھولیں جس کی کوئی حقیقت نہیں۔ سوال یہ ہے کہ امریکہ، اقوام متحدہ اورایسے ادارے کب سے مسلمانوں کے بہی خواہ ہوئے کہ انہیں صرف چینی مسلمانوں کا درد کھائے جا رہا ہے۔ ہاں یہ سب ہمارے لئے ضرور آنکھیں کھول دینے والا ہے کہ ہم حق سچ جان سکیں۔