چین (اصل میڈیا ڈیسک) چین سمیت بحر الکاہل کے پندرہ ایشیائی ممالک نے دنیا کے سب سے بڑے ‘آزادانہ تجارتی معاہدے‘ پر دستخط کر دیے ہیں۔
علاقائی تجارت کے فروغ کے لیے یہ معاہدہ طے پانے میں آٹھ سال لگے۔ توقع ہے کہ اس سے خطے کی 2.2 ارب آبادی مستفید ہو گی۔
دستخط کی تقریب اتوار کو ویتنام کے دارالحکومت ہنوئی میں جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی تنظیم آسیان کے ایک ورچوئل اجلاس کے بعد ہوئی۔
علاقائی جامع معاشی تعاون یا ‘ریجنل کامپری ہینسیو اکنامک پارٹنرشپ ‘ (آر سی ای پی) نامی اس معاہدے سے ٹیکسوں میں کمی لائی جائے گی، تجارتی ضوابط نرم کیے جائیں گے اور کورونا کی وبا سے متاثرہ سپلائی چین میں بہتری پیدا ہو گی۔
چین کی قیادت میں قائم ہونے والے اس تجارتی بلاک میں ایشیا پیسیفک کے آسیان دس ممالک کے ساتھ جاپان، جنوبی کوریا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ بھی شامل ہیں
چین کی حریف دنیا کی دو بڑی معیشتیں امریکا اور بھارت آزاد تجارت کے اس معاہدے کا حصہ نہیں۔
بھارت میں مقامی انڈسٹری کو اس آزاد تجارتی بلاک کا حصہ بننے پر سخت تحفظات رہے ہیں، جس کے باعث حکومت نے خود کو اس معاہدے سے الگ کر لیا تھا۔
مثال کے طور پر بھارت کی زرعی لابی، دودھ اور گاڑیاں بنانے والی کمپنیوں کو خدشہ سے کہ اگر بھارتی منڈی کو ایشیا پیسیفک ممالک کے لیے کھول دیا گیا تو نیوزی لینڈ، آسٹریلیا اور چین جیسے ممالک کی سستی اور بہتر مصنوعات سے ان کا کاروبار برباد ہو جائے گا۔
ماہرین کے مطابق ایک ایسے وقت میں جب صدر ٹرمپ کی قیادت میں امریکا عالمی تعاون کی بجائے یکطرفہ فیصلوں کو ترجیح دے رہا ہے، ایشیا میں تجارتی تعاون کے اس معاہدے کی اپنی اہمیت ہے۔
مبصرین کے مطابق چین کے لیے خاص طور پر یہ ایک بڑی کامیابی ہے کیونکہ امریکا کے برعکس اب بیجنگ عالمی سطح پر آزادانہ تجارت اور باہمی تعاون کی مثال بن کر ابھر رہا ہے۔ جاپان سمیت دیگر ممالک کو امید ہے کہ آگے جا کر بھارت بھی اس تجارتی بلاک کا حصہ بنے گا۔