چین میں ویغور مسلمانوں کی گمشدگیاں

Protest

Protest

سنکیانگ (جیوڈیسک) چین کے صوبے سنکیانگ میں ویغور مسلمان اپنے پیاروں کی گمشدگیوں کے بارے اطلاعات کے حصول کیلئے دنیا بھر کی حکومتوں کے ساتھ لابی کر رہے ہیں، تاکہ وہ اپنے لاپتہ رشتہ داروں کو برآمد کرا سکیں۔

چینی صوبے سنکیانگ میں ایک کروڑ دس لاکھ ویغور اور دیگر نسلوں کے مسلمان آباد ہیں اور ماہرین کے مطابق چینی حکومت کو یہ خدشہ رہا ہے کہ اس چینی مسلمان برادری کے کچھ لوگ عالمی دہشت گرد تنظیموں سے متاثر ہو کر چین میں بھی دہشت گرد کارروائیاں کر سکتے ہیں یا پھر کسی قسم کی کوئی علیحدگی پسند تحریک زور پکڑ سکتی ہے۔

اس خدشے کے تناظر میں حالیہ برسوں میں سنکیانگ میں حراستی مراکز قائم کئے گئے ہیں اور اطلاعات کے مطابق ہزاروں ویغور اور مسلمان شہریوں کو گرفتار کر کے ان کیمپوں میں رکھا گیا ہے۔

انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ ان حراستی کیمپوں میں دس لاکھ سے زائد مسلمانوں کو اُن کی مرضی کے خلاف قید میں رکھا جا رہا ہے اور اس کا مقصد ویغور مسلمانوں کی برین واشنگ کرتے ہوئے، اُنہیں اُن کے مذہب سے دور لے جانا ہے جبکہ چینی حکومت کا کہنا ہے کہ ان کیمپوں میں مسلمان اقلیت کو تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت دی جاتی ہے، تاکہ وہ دوسرے چینی شہریوں کی طرح ملازمتیں حاصل کر سکیں۔

وائس آف امریکہ نے چینی ویغور برادری کے کچھ ایسے افراد کے انٹرویو کئے ہیں جن کے رشتہ دار طویل عرصے سے ان حراستی کیمپوں میں قید ہیں اور وہ اُن کے بارے میں اطلاعات کے منتظر ہیں۔

گلگینے مموٹ نے بتایا کہ اُن کے بیٹے پکذاٹ قربان جان کو 2016 میں محض 16 برس کی عمر میں گرفتار کیا گیا۔ اُنہوں نے خود ترکی میں پناہ لے رکھی ہے۔

مموٹ بتاتی ہیں کہ اُن کے بیٹے کو چین واپس لوٹتے ہوئے ریاست کے خلاف سازش کے الزام میں اُرمقی ہوائی اڈے پر حراست میں لیا گیا تھا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ اسے 13 سال قید کی سزا دے دی گئی۔ مموٹ کے بیٹے کو پہلے کم عمر لوگوں کے قید خانے میں رکھا گیا۔ تاہم، بعد میں اسے مذکورہ حراستی کیمپ میں منتقل کر دیا گیا۔ مموٹ نے اقوام متحدہ اور دنیا کے طاقتور ملکوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اُن کے بیٹے اور دیگر بے گناہ ویغور مسلمانوں کو چینی حراستی کیمپوں سے آزاد کرانے میں مدد کریں۔

ترکی میں پناہ گزیں ایک اور چینی ویغور مسلمان خاتون امینہ محمد جان نے روتے ہوئے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اُن کی بیٹی گوہر نجات کو ملک سے باہر جاتے ہوئے اُرمقی ہوائی اڈے پر ہی گرفتار کیا گیا اور وہ اُس وقت سے لاپتہ ہے۔ اُنہوں نے بتایا کہ اُنہیں صرف یہ کہا گیا کہ اُن کی بیٹی قید خانے میں ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ اُنہیں اس بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا کہ اسے کہاں رکھا گیا ہے اور اسے کیا سزا دی گئی ہے۔ امینہ کہتی ہیں کہ اُنہیں گزشتہ 16 ماہ سے اُن کی بیٹی کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ملی ہے۔

محمد جان اور امینہ ہی واحد مسلمان نہیں ہیں جن کے رشتہ دار سنکیانگ میں قید ہیں۔ وائس آف امریکہ کو معلوم ہوا ہے کہ اس چینی صوبے میں موجود آزاد ویغور خاندانوں کے افراد بھی حکومت کے سخت مواصلاتی کنٹرول کی وجہ سے اپنے رشتہ داروں کے ساتھ رابطے میں نہیں ہیں۔

35 سالہ ویغور پناہ گزیں حسن جان عبدوکریم کو 2013 میں جب پتہ چلا کہ چینی حکام اُس کا پیچھا کر رہے ہیں تو وہ بھاگ کر مصر پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔ اُس کا کہنا ہے کہ وہ گزشتہ برس سے اپنے افراد خانہ سے رابطہ نہیں کر سکا ہے۔

اُس نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اسے جولائی 2013 میں اطلاع ملی کہ اُس کے ہاں بچی پیدا ہوئی ہے۔ وہ اپنی نوزائیدہ بچی کو دیکھنے کیلئے واپس جانا چاہتا تھا لیکن اُس کی والدہ نے اسے واپس آنے سے منع کر دیا، کیونکہ مقامی پولیس اُن سے اُس کے پاسپورٹ کا تقاضا کر رہی تھی، تاکہ اسے گرفتار کیا جا سکے۔ یوں وہ اپنی بچی کو دیکھے بنا ہی ملک سے باہر چلا گیا۔

عبدوکریم نے اپنے خاندان کے افراد کے بارے میں جاننے کیلئے کرغستان کے چند تاجروں سے رابطہ کیا جو اپنے کاروبار کی وجہ سے سنکیانگ جا رہے تھے۔ اُنہوں نے واپس آ کر اسے بتایا کہ اُس کے 65 سالہ والد کو 15 ماہ قبل گرفتار کر کے حراستی کیمپ بھیج دیا گیا تھا۔

عبدو کریم کا کہنا تھا کہ وہ انتہائی خوفزدہ ہے کہ اسے یہ خیال ستاتا ہے کہ اُس کی وجہ سے اُس کے والد پر ظلم کیا جا رہا ہے۔

انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ’ایمنیسٹی انٹرنیشنل‘ نے گزشتہ ہفتے اپنی تحقیقی رپورٹ میں بتایا کہ چین کے صوبے سنکیانگ میں قائم حراستی کیمپوں میں مبینہ طور پر مسلمانوں کو اپنے مذہبی عقائد یا چین کی ’ہن‘ ثقافت سے مختلف نظریات کو ترک کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس حکم کی مزاحمت کرنے والوں یا ہدایات پر عمل میں پیش رفت نہ دکھانے والوں کو مار پیٹ اور اذیت دینے کے دیگر طریقوں سے گزارا جاتا ہے۔

ایمنٹی انٹرنیشنل کے مشرقی ایشیا شعبے کے ڈائریکٹر نکولس بیکوئی لن کا کہنا ہے کہ یہ حراستی کیمپ برین واشنگ، اذیت رسانی اور سزا دینے کے مراکز ہیں۔

پاکستانی تاجر عمران بیگ اپنی لاپتہ ویغور چینی بیوی کی تصویر دکھا رہا ہے۔ فائل فوٹو
پاکستانی تاجر عمران بیگ اپنی لاپتہ ویغور چینی بیوی کی تصویر دکھا رہا ہے۔ فائل فوٹو
چین میں ویغور اور دیگر نسلوں کے مسلمانوں کی بیشتر آبادی صوبے سنکیانگ میں ہی موجود ہے اور ایک اندازے کے مطابق ان کی تعداد ایک کروڑ دس لاکھ سے زائد ہے۔

اس صوبے میں کچھ عرصہ قبل ایک علیحدگی پسند تحریک نے زور پکڑا تھا جو ’مشرقی ترکستان‘ کے نام سے ایک آزاد ملک کا مطالبہ کر رہی تھی۔ ویغور مسلمانوں نے چینی حکام پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ لاکھوں کی تعداد میں ’ہن‘ نسل کے چینیوں کو اس علاقے میں آباد کر کے یہاں کی آبادی کی حیثیت کو تبدیل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

بین الاقوامی سطح پر سامنے آنے والی تنقید کے جواب میں چینی حکام نے اپنی پالیسیوں کا سختی سے دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ الزامات سرا سر جھوٹ ہیں اور سیکیورٹی سے متعلق اُن کے اقدامات کا مقصد داعش کو یہاں آنے سے روکنا اور ترکستان اسلامی پارٹی کے ریاست مخالف اقدامات کو محدود کرنا ہے۔

آج منگل کے روز جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں ایک اعلیٰ چینی اہلکار شہرت ذاکر نے ویغور مسلمانوں کے حراست میں رکھنے کے اقدام کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کا مقصد سنکیانگ میں بسنے والی اقلیتوں کو چینی ثقافت میں ضم کرتے ہوئے اُنہیں جدید انداز زندگی کی جانب راغب کرنا ہے۔

سنکیانگ کے گورنر شہرت ذاکر نے رپورٹ میں مزید کہا ہےکہ ماورائے عدالت حراست کا مقصد ویغور اور دیگر مسلمانوں کو مفت پیشہ ورانہ تعلیم دینا ہے اور ان حراستی مراکز میں اُنہیں تربیت کے دوران بنیادی معاوضہ بھی دیا جاتا ہے۔