چین اور نیپال کے بعد اب بھوٹان نے بھی بھارت کو آنکھ دکھائی

 Narendra Modi

Narendra Modi

بھارت (اصل میڈیا ڈیسک) پڑوسی ممالک چین اور نیپال کے ساتھ بڑھتے تنازعات اور سرحدی کشیدگی کے درمیان اب بھارت کا ایک اور پڑوسی ملک بھوٹان بھی نئی دہلی کو آنکھیں دکھانے لگا ہے۔

بھوٹا ن نے اپنی سرحد سے ملحق بھارت کی شمال مشرق ریاست آسام کے گاؤں میں کسانوں کے لیے شہ رگ کہی جانے والی کالا ندی کا پانی روک دیا ہے۔ یہ نئی پیش رفت ایسے وقت ہوئی ہے جب بھارت چین اورنیپال کے ساتھ سرحدی تنازعہ کی وجہ سے پہلے سے ہی پریشانیوں سے دوچار ہے اور اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے مختلف سطحوں پر کوششیں جاری ہیں۔

پانی روک دینے سے بھارت کے ہزاروں کسانوں کا ذریعہ معاش خطرے میں پڑ گیا ہے۔ کسانوں نے کالا ندی سے نکلنے والی نہر کے بہاؤ کو کھولنے کا مطالبہ کرتے ہوئے قومی شاہرا ہ کی ناکہ بندی کردی ہے اور مظاہرے کررہے ہیں۔ مظاہرین نئی دہلی حکومت سے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے بھوٹان کے ساتھ فوراً بات چیت کرنے پر بھی زور دے رہے ہیں۔

بھوٹان کے کالا ندی کو آسام کے سرحدی بکسا ضلع کے کسانوں کے لیے شہ رگ کی حیثیت حاصل ہے۔ اس ندی سے نکلنے والی نہر سے ضلع کے 26 گاوں کے کسان اپنی فصلوں کی سینچائی کرتے ہیں۔ 1953 کے ایک معاہدے کے تحت مقامی کسان دھان کی فصلوں کی سینچائی کالا ندی سے آنے والے پانی سے کرتے رہے ہیں۔ لیکن بھوٹان حکومت کی طرف سے اچانک نہر کا بہاو روک دینے سے علاقے کے چھ ہزار سے زیادہ کسان مصیبت میں پھنس گئے ہیں۔ کسانوں کا کہنا ہے کہ ”ہم نے حسب سابق اس سال بھی اپنے دھان کے کھیتوں میں پودے لگانے شروع کیے تھے لیکن اچانک پتہ چلا کہ بھوٹان نے نہر کے ذریعہ آنے والے پانی کو روک دیا ہے۔ اس سے ہمارے لیے زبردست مصیبت پیدا ہوجائے گی۔”

ہر سال بوائی کا موسم شروع ہونے سے پہلے بھارتی کسان سرحد پار بھوٹان کے سامدروپ جوکھر ضلع میں جاکر نہر کی صفائی اور باندھ کی مرمت کا کام کرتے تھے تاکہ پانی کے بہاو میں کوئی رکاوٹ پیدا نہ ہو۔ لیکن اس مرتبہ جب وہ نہر کی صفائی کے لیے گئے تو بھوٹانی حکام نے ایسا کرنے سے روک دیا۔

بھوٹان کے ذریعہ پانی روک دینے سے بھارت کے ہزاروں کسانوں کا ذریعہ معاش خطرے میں پڑ گیا ہے۔

بھوٹان کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ کووڈ 19 کی وبا کے مدنظر کیا گیا ہے۔ چونکہ بھوٹان میں کسی بھی غیر ملکی شہری کو آنے کی اجازت نہیں ہے اسی لیے بھارتی کسانوں کو بھی ملک کے اندر داخل ہونے نہیں دیا گیا۔ لیکن مقامی بھارتی کسانوں کا کہنا ہے کہ کورونا اور نہر کا پانی دو الگ الگ معاملات ہیں اور کورونا کے بہانے پانی روکنے کا فیصلہ درست نہیں ہے۔ اس سے مقامی کسانوں کے لیے بہت مشکل پیدا ہوجائے گی۔

خیال رہے کہ چند دنوں قبل نیپال نے بھی اپنی سرحد سے ملحق بھارتی صوبہ بہار کے مشرقی چمپارن ضلع میں لال باکیا ندی پر واقع ڈیم کی مرمت کرنے سے بھارت کو روک دیا تھا۔ چونکہ نیپال کی ندیو ں سے آنے والا پانی ہر سال برسات کے دنوں میں جنوبی بہار کے اس علاقے کے لیے بہت بڑی تباہی لے کر آتا ہے اس لیے اس ڈیم کو ہر سال مرمت کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس مرتبہ بھی جب بھارتی حکام ڈیم کی مرمت کرنے کے لیے گئے تو نیپالی حکام نے ایسا کرنے سے یہ کہتے ہوئے روک دیا کہ یہ ڈیم نیپال کے علاقے میں واقع ہے اور ڈیم سے پانچ سو میٹر تک کا علاقہ نیپال کا حصہ ہے۔ بھارت نیپال سرحد پر پچھلے دنوں نیپالی سیکورٹی فورسز اور بھارتی شہریوں میں جھڑپ بھی ہوگئی تھی جس میں ایک شہری ہلاک اور تین دیگر زخمی ہوگئے تھے۔

نیپال کے شہریت قانون میں ترمیم اور نیا سیاسی نقشہ جاری کرنے کے بعد پہلے سے ہی دونوں ملکوں کے تعلقات میں کشیدگی ہے۔ نیپال نے بھارتی صوبہ اتراکھنڈ کے تین علاقوں کو اپنے نئے سیاسی نقشے میں شامل کرلیا ہے جبکہ بھارت کا دعوی ہے کہ یہ اس کے علاقے ہیں۔

نیپالی وزیر خارجہ ملک کا نیا نقشہ دکھاتے ہوئے، اس میں ان تین علاقوں کوشامل کرلیا ہے جن پر بھارت اپنا دعوی کرتا ہے۔

ادھر چین کے ساتھ سرحدی اور عسکری تنازعہ مزید پیچیدہ ہوتا جارہا ہے۔ بھارت نے چین سے کہا ہے کہ وہ سرحدی تنازعہ کے حوالے سے باہمی اتفاق رائے پر عمل کرے۔ دوسری طرف نئی دہلی میں چینی سفیر نے بھارت سے کسی ایسے اقدام سے گریز کرنے کے لیے کہا جس سے حقیقی کنٹرول لائن پرصورت حال مزید پیچیدہ ہو۔

تقریباً 38 ہزار مربع کلومیٹر پر واقع بھوٹان، مالدیپ کے بعد جنوبی ایشیا کا دوسرا سب سے چھوٹا ملک ہے۔ بھارت ترقیات، تعلیم، خارجہ پالیسی اور سیکورٹی جیسے امور میں اس کی مدد کرتا رہا ہے۔

سیاسی تجزیہ نگار وں کا کہنا ہے کہ بھوٹان نے پانی روکنے کا فیصلہ غالباً نیپال سے حوصلہ پاکر کیا ہے۔ سیاسی تجزیہ نگار وشوناتھ دت نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا”بھوٹان ہمارا دوست ہے، اپنی تمام ضرورتوں کے لیے کافی حد تک بھارت پر منحصر رہا ہے۔ بھارت ہر مصیبت کے وقت اس کی مدد کرتا رہا ہے لیکن شاید اس نے نیپال سے حوصلہ پاکر یہ قدم اٹھایا ہے۔” وشوناتھ دت کا کہنا تھا کہ آسام اور مرکز کی حکومتوں کو اس مسئلے کو سنجیدگی سے لینا چاہیے اور مسئلے کو حل کرنے کے لیے جلد از جلد پہل کرنی چاہیے۔