تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم گزشتہ ہفتے ہمارے پانا ما لیکس کی جے آئی ٹی میں نامزد وزیراعظم محترم المقام عزت مآب جناب محمد نوازشریف اپنے وفاقی وزیرخزانہ ،وزیرریلوے ، وزیرمملکت برا ئے انفارمیشن، وزیر منصوبہ بندی ،ٹیکنا لوجی اور مشیربرائے امورخارجہ کے علاوہ چا روں صوبوںکے وزرا ئے اعلٰی اور اپنے اہلِ خا نہ کے ہمرا ہ چین میں ہونے والے دوروزہ اجلاس بیلٹ اینڈ روڈ(ایک پٹی ایک شاہراہ (اوبور) فورم برا ئے بین الاقوامی ترقی میں شرکت اور چین کے تعاون سے پاکستان میں دیگر ترقیاتی منصوبوں کا معاہدہ کر نے کے لئے اپنے جگری دوست مُلک چین روانہ ہوئے چین میں ہونے والے اِس دوروزہ اجلاس کی اہم ترین اور منفرد بات یہ ہے کہ اِس اجلاس میں 29سربراہانِ مملکت اور حکومت شریک تھے ۔تا ہم اِس موقع پر سب سے زیادہ حو صلہ افزاامر یہ رہا کہ اب تک کے مُلکی اور عالمی سطح کے فورمزمیں وزیرا عظم کے کئے جا نے والے خطا بات میں سے چین میں دوروزہ ہونے والے اجلاس میں وزیراعظم نوازشریف کا کیا جا نے والا خطاب اپنی نوعیت کا اہم ترین اور جامع خطاب تصور کیا گیااِس میں شک نہیں کہ وزیراعظم کے اِس خطاب کا سارا کریڈٹ وزیراعظم سے کہیں زیادہ اِن کا یہ خطا ب لکھنے والے کے سر جاتا ہے۔
یقیناچین میں وزیراعظم نوازشریف نے جو خطاب کیا ہے آنے والے وقتوں میں اِس خطا ب کے مثبت ثمرات پاکستان کی جھولی میں بھی ضرورپڑیں گے ہرچند کہ جس وقت یہ سطور صفحہ قرطاس پر رقم کی جاتی رہی ہیں تواُس وقت بھی وزیراعظم اپنے رفقائے کار کے ہمرا ہ چین ہی میں موجود تھے جہاں سے متواتر بہت سی حوصلہ افزاءخبریں آتی رہیں تو وہیں بے شمار ایسی بھی قابل تعریف اور قابلِ ستائش خبریں بھی ملتی ر ہیں کہ جن کامجھے یہاں تذکرہ کرنا بہت ضروری ہے جیسے کہ اُن دِنوں چین کے دارالحکومت بیجنگ میں وزیراعظم نوازشریف کی سربراہی میں پاکستانی وفد اور اعلیٰ چینی قیادت کے درمیان ہو نے والی ملاقاتوں کے دوران کئی اپنی نوعیت کے اہم ترین ترقیاتی منصوبوں سمیت مالی اور تکنیکی تعاون کے معاہدوں پر بھی دستخط کئے گئے جن میں گوادر ائیر پورٹ،ایم ایل ون شاہر کی اَپ گریڈیشن، بھاشا ڈیم، ایسٹ بے ایکسپریس وے ، حویلیاں ڈرائی پورٹ کی تعمیراور بہت سے کم قیمت منصوبوں کے علاوہ ریلوے ٹریک سے متعلق بھی منصوبے خاصی اہمیت کے حامل تصورکئے گئے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ آج چین نے خطے سمیت دنیا کے تین برئے اعظموں میں اپنی اقتصادی اور معاشی اہمیت منوا نے کے لئے پاکستان کی سرزمین سے سی پیک منصوبے کی کامیاب تکمیل کے بعد اَب 900ارب ڈالرکی مجوزہ سرمایہ کاریوں سے ایک اور نہ روکنے والی دنیا کی سب سے بڑی اور منفرد و اعلیٰ سرمایہ کاری ون بیلٹ ون روڈ(ایک پٹی ایک شاہراہ (اوبور)منصوبے سے پاکستان سمیت خطے کے دوسرے ممالک کی بندرگاہوں اور مشرقی افریقہ میں تیزرفتار ٹرینوں اور وسطی ایشیا تک گیس پائپ لائنوں اورترقیاتی منصوبوں کا جو سلسلہ شروع کررکھاہے اِس سے جہاں پاکستان سمیت خطے کے دوسرے ممالک اور برئے اعظموں کو فائدہ پہنچے گا توو ہیں پاکستان سے زیادہ چین کو فوائد حاصل ہوںگے،ایسے میں ہمیں ایک لمحے کو یہ ضرور سوچناچا ہئے کہ آخر پاکستان کب تک اپنے ہمسا یہ ملک اور اچھے دوست چین پر انحصار کرتا رہے گا ؟؟ ہم کب اپنے پیروں پہ خود سے کھڑے ہو کر چلنا سیکھیں گے۔
ہمارے قیام کو ستر(70)سال تو ہوگئے ہیں تیس سال بعد ہماری سینچری ہوجا ئے گی اور ہم ایک صدی 100سال کے ہوجا ئیںگے مگر یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ ہم ابھی تک دوسروں پہ ہی انحصار کرتے آئے ہیں ہم نے آج تک اپنے پیروں پہ خود سے چلنے کی کوشش ہی نہیں کی ہے شا ئد دوسروں پہ انحصار کرنے اور امدادوں اور قرضوں پہ اپنا دال دلیہ چلانے اور کھا پی کر اپنے دامن میں ہاتھ صاف کرکے غریبوں کی طرح کبھی خالی زمین تو کبھی چٹائی پر سو جانے اور مانگ مانگ کر کھانے کی ہماری عادت سی پڑ گئی ہے اور اَب ہم ایسے لاچا راور بے کس ہوگئے ہیں کہ اَب ہمیں خود سے محنت مشقت کرکے کھانے اور کمانے کی عادت ہی نہیں رہی ہے آج جب کہ چین اپنے ہی مفادات کے خاطر سہی مگر ہماری دل کھول کر مدد کررہاہے تو ہمیں بھی چا ہئے کہ اَب ہم چین پر انحصار کرنا کم کردیں اور اِس کے مفید مشوروں سے خود کو سنبھالنے اور اپنے پیروں پر کھڑارہنے اور چلنے اور دوڑنے کا عادی بنالیں اور ہاں ہمیں اپنے زراعت اور سوتی پارچہ بانی کے شعبوں سمیت دیگر اہم نوعیت کے شعبوں کو مکمل طور پر چین کے حوالے بھی نہیں کرناچا ہئے ورنہ آنے والے وقتوں میں کسانوں کے ہاتھ سوا ئے کفِ افسوس اور پچھتاوے کے کچھ نہیں آئے گاہماری ہر چیز پر ہمارے دوست چین کا قبضہ ہوجا ئے گا اور ہم بس پھر …؟؟؟۔اگرچہ یہ ٹھیک ہے اور اِس سے بھی کسی صورت انکار نہیں کیا جاسکتاہے کہ چین خطے میں پاکستان کا وہ واحد ملک ہے جو پاکستان کی ہر مشکل گھڑی میں پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑاہوا اور حالات کسیے ہوئے رہے ہوں چین نے ہر لحاظ سے پاکستان کی مدد کو اپنا فرضِ اولین جانااور کبھی بھی کسی امداد اور مدد سے منہ موڑ کر یا پیٹھ پھیر کر نہیں بھاگاہے بلکہ جس کی پاکستان کی ہر دُکھ اور تکلیف کی گھڑی اور پاکستان کی ہر خوشی کے موقع پر یہی کوشش رہی ہے کہ پاکستان جو چین کا ایک اچھا ہمسا یہ اور ایک غریب دوست مُلک بھی ہے۔
چین اپنے اِس دوست کی ہر موقع پر ہر طرح سے مدد کرے اور اِسے مشکل وقت اور پریشانیوں سے نجات دلائے،یہاں یہ امربیشک قابلِ ذکر ہے کہ ہمیشہ کی طرح آج بھی چینی قیادت تہہ دل سے اپنے دوست پاکستان کی ترقی و خوشحالی کے لئے خلوصِ نیت کے ساتھ پیش پیش ہے جس کی بس ایک یہی خوا ہش ہے کہ پاکستان اپنے پیروں پر کھڑا ہواور نہ صرف خطے بلکہ دنیا کے دیگر ممالک اور برے اعظموں کے شا بہ بشا نہ ترقیاتی منصوبوں کا حصے بنے اور اِس کا ہاتھ تھام کر اپنا آپ دنیا کے سامنے منوا ئے تاکہ دنیا کو یہ یقین ہوجا ئے کہ پاکستان اپنے وجود کی طرح دنیا کی ترقی میں بھی کسی سے پیچھے نہیں ہے یہاں اَب بھی ہم پاکستانیوں کو ایک لمحے کے لئے یہ ضرور سوچناہوگا کہ ہم چین سمیت دوسروں پہ ہی انحصار کرتے رہیں گے یا خود بھی کچھ کریں گے..؟؟(ختم شُد)