سی پیک کے حوالہ سے ایک نقطہ نظر پاکستان میں ابھر رہا ہے کہ سی پیک (پاک چین اقتصادی راہداری) ایک دوسری ایسٹ انڈیا کمپنی بن رہی ہے۔ چائنہ اب تک 64 بلین ڈالر کے منصوبوں پر کام کر چکا ہے۔ یہ تشویش بہت سے پاکستانیوں کے ذہنوں میں ہے۔ سینیٹر طاہر مشہدی پلاننگ اینڈ ڈویلوننگ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے چیئرمین نے خدشات کا اظہار کیا کہ پاکستان سی پیک کی رقم چائنہ کو کس طرح ادا کر سکے گا۔ طاہر مشہدی نے چینی مفادات کے مطابق منصوبوں پر بجلی کی قیمت کے حوالے سے چین کے مطالبات پر اعتراض اٹھائے۔ چینی وفد نے سی پیک منصوبے کو اس انداز میں پیش کیا کہ پاکستان کو چائنہ سے نسبتاً زیادہ فائدہ ہو گا جبکہ یہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرح پاکستان میں شامل ہونا چاہتا ہے۔ چائنہ اور ایسٹ انڈیا کمپنی کا موازنہ کیا جائے تو سی پیک منصوبے کے تناظر میں پاکستان کا بے انتہا فائدہ بیان کیا گیا۔
ایسٹ انڈیا کمپنی بنیادی طور پر تجارت کی غرض سے برصغیر میں آئے تھے لیکن طاقت کا وحشیانہ استعمال کر کے ان پر قبضہ کر لیا۔ یہ برطانوی نو آبادیاتی نظام کی تاریخ میں پہلا خونخوار واقعہ تھا۔ اس کے برعکس چین اور پاکستان کی مثالی دوستی’ باہمی اعتماد کی بنا پر اس منصوبے کے چند خدشات ہیں۔ چین سی پیک کا پورا فائدہ لے جائے گا۔ چین مسئلہ کشمیر میں پاکستان کی مدد کرے گا تاکہ وہ ملک کی پالیسیوں پر مکمل کنٹرول کر کے سرمایہ کاری کر سکے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ چائنہ دوسرے ممالک میں کتنا ملوث ہے۔
خاص طور پر افریقہ میں ایسٹ انڈیا کمپنی اپنی فوج کی طاقت دکھانے کے لئے برصغیر میں بنائی گئی تھی نہ کہ مقامی فلاح و بہبود کے لئے جبکہ چائنہ کا نقطہ نظر یہ ہے کہ وہ فوجی طاقت اقتصادی خوشحالی کے ذریعے دنیا میں بڑھائے۔ چین پورے براعظم میں اقتصادی ترقی کے تعاون پر گامزن ہے۔ سی پیک ایسا منصوبہ ہے جس سے دونوں پارٹیوں کو فائدہ ہو گا۔ چائنہ کو پاکستان میں اقتصادی اور سیاسی طور پر اتنا ہی حق حاصل ہو گا جتنا پاکستان ان کو دے گا۔ اب یہ پاکستان پر منحصر ہے کہ پاکستان اس سے کس طرح فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ منصوبہ پر عمل درآمد کی رفتار اطمینان بخش ہے اور سی پیک کی جلد تکمیل حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے۔
انہوں نے کہا کہ سی پیک کی تکمیل سے نہ صرف قومی معیشت بلکہ پورے خطے کی ترقی پر مثبت اثرات مرتب ہوںگے۔ سی پیک کے مغربی روٹ کے تحت ملک بھر میں عالمی معیار کی موٹر ویز اور ایکسپریس ویز تعمیر کی جا رہی ہیں اور سی پیک کا ہلکلہ ـڈی آئی خان سیکشن رواں سال کے آخر تک مکمل ہوگا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ملک کے شمالی حصے میں 120کلو میٹر طویل حویلیاں تھا کوٹ ایکسپریس وے سی پیک منصوبہ کا اہم حصہ ہے۔ یہ سڑک حویلیاں ، ایبٹ آباد ، مانسہرہ ، شنکیاری اور تھاکوٹ کو ملاتی ہے۔ منصوبہ میں 9کلو میٹر طویل چھ سرنگیں بھی شامل ہیں۔یہ منصوبہ 134ارب روپے کی لاگت سے مکمل کیا جا رہا ہے جو جلد تکمیل کے مراحل طے کر لے گا۔
سی پیک کے تحت بلوچستان میں ہزاروں کلو میٹر طویل ہائی ویز تعمیر کی جا رہی ہیں جو صوبے کی اقتصادی ترقی سمیت صوبے کی 50فیصد سے زائد ہنر مند اور غیر ہنر مند افرادی قوت کو روز گار کی فراہمی کی ضامن ہیں۔ گوادر بندرگاہ پر لاکھوں تجارتی سامان کی ہینڈلنگ سمیت سو سے زائد برتھس کی تعمیر کے ساتھ ساتھ دنیا کے سب سے بڑے بحری جہازوں کے لنگر انداز ہونے کی سہولیات بھی دستیاب ہوںگی۔ سی پیک منصوبہ کی کامیابی ایک سڑک اور ایک خطے کے منصوبہ کی کامیابی کی ضمانت ہے جس سے نہ صرف خطے کے ممالک کے رابطوں بلکہ یورپی ممالک تک رابطوں میں اضافہ ہوگا۔ سی پیک صرف سالوں اور دہائیوں پر مشتمل نہیں بلکہ یہ منصوبہ صدیوں طویل ہے اس لئے منصوبوں کے آغاز اور تکمیل کے حوالے سے قوانین میں وضاحت ہونی چاہئے۔ سی پیک منصوبہ کی تکمیل سے گوادر تا گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر سمیت پورے ملک میں ترقی اور خوش حالی کے نئے دور کا آغاز ہوگا۔
چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ (سی پیک ) قابل اعتماد دوست چین کا پاکستان کیلئے ایک عظیم تحفہ ہے .پاکستان اور چین کو دوطرفہ تعاون کو زرعی شعبے تک توسیع دینی چاہئے سی پیک پاکستان کیلئے گیم چینجر ہے اس سے پاکستان میںروزگار کے دروازے کھل رہے ہیں . یہ پاکستان کے لئے سماجی ،اقتصادی اور سیاسی فوائد بھی لارہاہے۔تجزیہ کاروں اورماہرین معیشت کو یقین ہے کہ پاکستان کے زرعی شعبے میں پاکستان کی مالی اور تکنیکی امداد سے دونوں ممالک کو زبردست فائدہ حاصل ہو گا اور اس شعبے میں روزگار کے ہزاروں مواقع پیدا ہوں گے کیونکہ پاکستان کی زیادہ تر آبادی دیہی علاقوں میں رہتی ہے جس کی گزراوقات زراعت پر ہے۔زنہوا کی ایک جاری رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سی پیک کی وجہ سے بے شمار پاکستانی میرٹ پر چینی کمپنیوں میں روزگار حاصل کر چکے ہیں جس سے ان کے طرز زندگی میں واضح تبدیلی دکھائی دیتی ہے۔چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ (سی پیک) تیزی سے مکمل ہو رہا ہے جسکی تکمیل سے چین پاکستان دوطرفہ تعلقات نئی بلندیوں کو چھوئیں گے۔
سی پیک کی تکمیل سے نہ صرف باہمی تعاون کی نئی راہیں کھلیں گی بلکہ دونوں ممالک کی دہائیوں پرانی دوستی صدیوں تک بڑھتی رہے گی۔ تین مراحل پر مشتمل سی پیک منصوبہ کی لاگت 62ارب ڈالر ہے جو پاکستان کے بنیادی ڈھانچے کو جدید ترین بنانے کے ساتھ ساتھ معیشت کے استحکام میں معاون ثابت ہوگا۔ منصوبہ کے تحت ٹرانسپورٹ کا جدید ترین نظام ، توانائی کے پیداواری منصوبے صنعتی ترقی کیلئے خصوصی اقتصادی زون قائم کئے جا ئیں گے مزید برآں سی پیک صرف سڑکوں اور باہمی رابطوں کا منصوبہ نہیں ہے بلکہ صحت اور تعلیم سمیت معیشت کے مختلف شعبوں میں نئی روح پھونک دے گا۔ منصوبہ کے تین مراحل ہیں پہلے مرحلہ کے دوران پانی ، کوئلے اور تھرمل سے بجلی پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ ہائی ویز اور سڑکوں کا جال بچھایا جائیگا جبکہ دوسرے مرحلہ کے دوران جو مارچ 2018ء میں شروع ہوگا اس میں ایم ایل ون منصوبہ کے تحت پشاور تا کراچی براستہ راولپنڈی ، جہلم ، گوجرانوالہ ، لاہور ، بہاولپور ، روہڑی ، حیدر آباد اور کراچی تک 18سو کلو میٹر طویل ریلوے ٹریک کو اپ گریڈ کیا جائیگا۔8ارب ڈالر مالیت سے زائد کے ایم ایل ـون منصوبہ کے تحت ریلوے ٹریک کو ڈبل کرنے اور سگنل سسٹم کی اپ گریڈیشن کے ساتھ ساتھ مسافروں اور تجارتی سامان کی نقل و حرکت کیلئے ریل گاڑیوں کو بھی اپ گریڈ کیا جائیگا۔ منصوبہ کی تکمیل سے ریل گاڑیوں کی موجودہ رفتار 100کلو میٹر فی گھنٹہ سے 160، 170کلو میٹر فی گھنٹہ تک بڑھ جائیگی۔ مزید برآں سی پیک کے تیسرے مرحلے کے دوران صنعتی شعبہ کی ترقی سے پاکستان دنیا کے صنعتی ممالک کی صف میں شامل ہوجائیگا۔
پاکستان کیلئے برا چاہنے والوں کیلئے ایک مزید بری خبر یہ ہے کہ سی پیک کے حوالے سے وہ جس غلط فہمی کا شکار تھے وہ نہ صرف رفع ہوچکی بلکہ اب سی پیک مزید آب و تاب اور وسعت سے آگے بڑھے گا۔ سی پیک کے حوالے سے سب سے عظیم خبر یہ ہے کہ اس میں اب ہمارا برادر اسلامی ملک سعودی عرب بھی حصہ دار بننے جا رہا ہے۔ یہ خبر یقیناًسی پیک کے دشمنوں کیلئے ایٹم بم سے کم نہیں۔ سعودی عرب کے سی پیک کا حصہ بننے سے اب اس حوالے سے فنانشل ٹائم کی ایک گمراہ کن خبر اپنی موت آپ مر گئی بلکہ اب اس کے استحکام اور کامیابی کے تین سٹیک ہو لڈر بن گئے۔
سعودی عرب کے آنے سے اب سی پیک پہلے سے زیادہ تیزی سے مکمل ہوگا۔ مزید خوشخبری یہ ہے کہ سعودی عرب گوادر میں آ ئل سٹی بنانے جا رہا ہے۔ یہ قدرت کا کرشمہ ہے کہ پاکستان کو ہمیشہ ایسی قیادت ملی جس نے اس کے خزانوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا لیکن اللہ کی خاص مہربانی ہے کہ اس نے دھرتی کو ایک ایسے اہم سٹریٹجک پوزیشن پر براجمان کیا ہے کہ مدعی لاکھ برا چاہے وہ اس کی حیثیت اور اہمیت کم نہیں کرسکتا۔ گو بھیک اور امداد اور قرضے مانگ کر جینا کوئی اتنا غیرت مند لائف سٹائل نہیں۔ موجودہ پی ٹی آئی سے اپنی عملی بیس روزہ حکومت کا فوری حساب مانگنا دانشمندی نہیں۔ ہاں اگر یہ بھیک کا ٹھیکرا پانچ سال بعد بھی ہاتھ میں رہا تو یقیناًاس کے ذمہ دار عمران خان ہونگے۔
پاکستان کو اپنی مشکلات کا مقابلہ کرنے کیلئے 9 بلین ڈالر کی ضرورت ہے، وہ اسے کہیں نہ کہیں سے مل ہی جائیں گے۔ امریکہ یہ کبھی نہیں چاہے گا کہ وہ ہمارے تمام راستے بند کر دے۔ ویسے بھی سی پیک میں چین کی شمولیت کے بعد چین اور سعودی عرب پاکستان میں معا شی و سیاسی استحکام کے پابند ہیں۔ دونوں ممالک پاکستان کو یہ یقین دہانی کراچکے ہیں کہ اگر انہیں آئی ایم ایف یا ورلڈ بنک سے قرضہ نہیں ملتا تو اپنا کردار ادا کریں گے۔ ویسے بھی پاکستان نے دنیا بھر سے اتنا قرضہ لے لیا ہے کہ کوئی یہ نہیں چاہے گا کہ اسے کچھ ہو۔ لگتا ہے ایسے کہ آنیوالے دو سال حکومت کیلئے مزید مشکلات کے ہیں، اگر ان دو سالوں میں اس نے سیاسی شورش برپا نہ ہونے دی تو یقیناًپاکستانی عوام کی طرح اس کا مستقبل تابناک نظر آتا ہے۔