چین: مذہبی انتہا پسندی کا الزام، 19 مسلمانوں کو سزائیں

China

China

بیجنگ (جیوڈیسک) بیجنگ چین کے صوبے سنکیانگ میں مذہبی انتہا پسندی کے الزام پر 19 یغور مسلمانوں کو سزائیں سنا دی گئیں، انسانی حقوق کے متعدد گروپوں کی جانب سے فیصلے کی مذمت، چینی حکام مبالغہ آرائی سے کا م لیتے ہو ئے فیصلے کر رہے ہیں:حقوق انسانی تنظیم۔

چین کے شمال مغربی علاقے سنکیانگ میں چینی عدالتوں نے مذہبی شدت پسندی پر اکسانے اور دیگر الزامات کے تحت یغور نسل کے 19 افراد کو قید کی سزائیں سنا دیں۔ چین کے سرکاری اخبار نے بتایا کہ مسلمان اکثریت کے علاقے سنکیانگ میں ایک مشتبہ شخص کو چھ برس قید کی سخت ترین سزا دی گئی ہے جن پر الزام ہے کہ اس نے انٹرنیٹ پر شائع کیے گئے مواد میں جہاد اور نسلی منافرت کو فروغ دینے کی کوشش کی۔

رپورٹ کے مطابق دیگر الزامات کے تحت کچھ دوسرے مشتبہ افراد کو دو سے پانچ برس قید کی سزائیں سنائی گئیں جن میں عام لوگوں کی دل آزاری اور آن لائن افواہیں پھیلانا شامل ہے۔ حالانکہ رپورٹ میں مشتبہ افراد کی نسل کے بارے میں کچھ نہیں کہا گیا لیکن ان کے ناموں سے پتا چلتا ہے کہ وہ ترک زبان بولنے والے لوگ ہیں جن کا تعلق یغور کی اکثریتی مسلمان برادری سے ہے۔

چین کا کہنا ہے کہ اسے یغور انتہا پسندوں کی طرف سے بڑھتا ہوا خطرہ لاحق ہے جو مشرقی ترکستان کے نام سے ایک علیحدہ ملک تشکیل دینا چاہتے ہیں۔ انسانی حقوق سے متعلق متعدد گروپوں کا کہنا ہے کہ پولیس کی بھاری نفری اور مسلمان اداروں کی نگرانی کو درست قرار دینے کی غرض سے چین مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہوئے خطرے کا ڈھنڈورا پیٹ رہا ہے۔

یغور برادری سے تعلق رکھنے والے متعدد افراد اکثر یتیہان چینی گروپ کی طرف سے شدید دخل اندازی پر مبنی مذہبی اور ثقافتی امتیاز برتے جانے کی شکایت کرتے آئے ہیں۔ سنہ 2009 سے سنکیانگ میں تنائو جاری ہے جب ہنگاموں کے ایک سلسلے میں 200 سے زائد افراد ہلاک ہوئے جب یغوروں کی سرکاری سلامتی افواج اور ہان چینیوں سے جھڑپیں ہوئیں۔

مارچ میں کاشگر کے علاقے میں جہاں یغور نسل کی کثیر آبادی ہے ہنگامہ آرائی کے نتیجے میں 21 افراد ہلاک ہوئے جس کے بعد عہدے داروں نے اِنھیں مذہبی بنیادوں پر دہشت گردی کے واقعات قرار دیا۔ یغور برادری سے تعلق رکھنے والے سرگرم کارکنوں نے اس الزام کو مسترد کیا ھے۔