واشنگٹن (اصل میڈیا ڈیسک) امریکی وزیر خارجہ نے اپنے چینی ہم منصب سے ملاقات کے دوران بیجنگ سے خطہ بحر الکاہل میں کشیدگی کم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ تائیوان کے تعلق سے حالیہ امریکی بیانات پر چین شدید نکتہ چینی کرتا رہا ہے۔
امریکی وزارت خارجہ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ وزیر خارجہ انٹونی بلینکن نے 31 اکتوبر اتوار کے روز اپنے چینی ہم منصب وانگ ای سے ملاقات کی اور بیجنگ کو مشورہ دیا کہ وہ تائیوان کے خلاف کسی بھی طرح کی یکطرفہ کارروائیوں سے گریز کرے۔
اطالوی دارالحکومت روم میں جی 20 کانفرنس کے دوران دونوں رہنماؤں کی ملاقات ہوئی جس میں چین کے صدر شی جن پنگ شریک نہیں ہوئے۔
امریکی وزیر خارجہ نے اپنے چینی ہم منصب وانگ ای کو بتایا کہ تائیوان سے متعلق امریکا کی ”ون چائنا” یعنی متحدہ چین کی پالیسی میں کوئی بھی تبدیلی نہیں آئی ہے۔
امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس کا کہنا تھا کہ بلینکن نے بتایا ہے کہ امریکا، ”سنکیانگ، تبت اور ہانگ کانگ میں انسانی حقوق سمیت مشرقی اور جنوبی بحیرہ چین اور تائیوان سے متعلق ایسے اقدامات کا مخالف ہے جو ہماری اقدار اور مفادات کے خلاف ہوں۔”
ان کا مزید کہنا تھا کہ چین اور امریکا، ”شمالی کوریا، میانمار، ایران، افغانستان اور ماحولیات کے بحران جیسے مسائل پر ایک ساتھ کم کر سکتے ہیں۔”
چین کی وزارت خارجہ نے اس حوالے سے اپنے بیان میں کہا کہ وانگ ای نے بلینکن کے ساتھ بات چیت کے دوران امریکا پر زور دیا ہے کہ وہ چین کے ساتھ مختلف معاملات پر اپنی ”غلط روش” کو درست کرے۔
چینی وزیر خارجہ نے امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلینکن کو بتادیا ہے کہ تائیوان میں آزادی کی حامی افواج کے لیے مبینہ طور پر امریکی حمایت ہی بحرالکاہل میں کشیدگی کی اہم وجہ ہے۔
حال ہی میں امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ اگر چین نے تائیوان پر حملہ کیا تو امریکا تائیوان کا دفاع کرے گا۔ امریکی صدر کا کہنا تھا کہ تائیوان کے تئیں امریکی عزم، ”چٹان کی طرح مضبوط” ہے۔
چین ان کے اس بیان سے کافی برہم ہوا اور چینی وزارت خارجہ نے اس کے رد عمل میں کہا کہ امریکا آبنائے تائیوان میں ”اپنی طاقت آزمانے” کی کوشش میں ہے۔
امریکی وزیر خارجہ نے حال ہی میں اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ تائیوان کو اقوام متحدہ جیسے مزید عالمی اداروں میں شامل ہونے کی ضرورت ہے۔ چین نے اس پر بھی اپنے سخت رد عمل کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”چین اس کا سخت مخالف ہے۔”
چین کے ساتھ ایک دیرینہ سمجھوتے کے تحت واشنگٹن ”ون چائنا” یعنی متحدہ چین کی پالیسی پر قائم ہے۔ اس سیاسی موقف کے مطابق امریکا سرکاری سطح پر تائیوان کے دارالحکومت تائی پی کو تسلیم کرنے کے بجائے تمام معاملات بیجنگ سے طے کرنے کا پابند ہے۔لیکن واشنگٹن کا تائیوان کے بجائے بیجنگ کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کا فیصلہ اس موقف سے مشروط بھی ہے کہ تائیوان کا مستقبل پرامن طریقے سے طے کیا جائے گا۔
تائیوان خود کو ایک خود مختار ریاست سمجھتا ہے لیکن چین اسے اپنے ملک کا ہی ایک حصہ قرار دیتا ہے۔ چینی صدر شی جن پنگ نے گزشتہ دنوں تائیوان کے ”مکمل انضمام” کے اپنے عزم کا اعادہ کیا تھا۔ چین نے تائیوان کے دوبارہ انضمام کے حصول کے لیے طاقت کے ممکنہ استعمال کو بھی مسترد نہیں کیا۔
خیال رہے کہ چین اور تائیوان سن 1940 کی دہائی میں خانہ جنگی کے دوران منقسم ہو گئے تھے تاہم چین کا اصرار ہے کہ یہ جزیرہ اس کا اپنا حصہ ہے اور اگر ضرورت محسوس ہوئی تو انضمام کے لیے طاقت کا بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
تائیوان کا اپنا آئین ہے اور یہاں جمہوری طورپر رہنماؤں کا انتخاب ہوتا ہے۔ البتہ صرف چند ممالک ہی تائیوان کو تسلیم کرتے ہیں۔ امریکا کا تائیوان کے ساتھ کوئی سرکاری تعلق نہیں ہے۔
ہند بحرالکاہل سے متعلق امریکی کمانڈ کے سابق کمانڈر ریٹائرڈ ایڈمرل فلپ ڈیوڈسن نے اسی برس مارچ میں کانگریس کو بتایا تھا کہ چین اگلے چھ برسوں میں ہی تائیوان پر حملہ کر سکتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی پیش گوئی کی ہے کہ چین 2050 تک دنیا کی سب سے بڑی پاور کے طور پر امریکا کو پیچھے چھوڑ دے گا۔