سنکیانگ (اصل میڈیا ڈیسک) چین کے شمال مغربی صوبے سنکیانگ میں انصاف اور تعلیم کے محکموں کے ایغور نسل کے دو سابق سربراہان کو علیحدگی پسندانہ سرگرمیوں کے الزام میں سزائے موت سنا دی گئی ہے۔ انہیں سنائی گئی سزا پر دو سال تک عمل درآمد نہیں کیا جائے گا۔
چین پر الزام ہے کہ وہ اپنے صوبے سنکیانگ میں ایغور نسل کی مسلم اقلیت کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزیوں کا مرتکب ہو رہا ہے لیکن بیجنگ حکومت ایسے الزامات کو مسترد کرتی ہے۔ سنکیانگ میں انصاف اور تعلیم کے محکموں کے ان دونوں سابق سربراہان کو سنائی جانے والی سزائے موت میں نرمی کا ایک پہلو بھی ہے، جسے چین میں قانونی زبان میں ‘رحم دلی یا معافی‘ کہتے ہیں۔
نرمی کا پہلو یہ ہے کہ ان دونوں سابق اعلیٰ صوبائی عہدیداروں کو سنائی گئی سزائے موت پر عمل درآمد میں دو سال کی چھوٹ دے دی گئی ہے۔ کسی وقتی نرمی کے بغیر سنائی گئی سزائے موت پر عام طور پر جلد عمل درآمد کر دیا جاتا ہے، مگر نرمی یا وقتی رعایت کے ساتھ سنائی جانے والی سزائے موت بعد میں اکثر عمر قید میں بدل دی جاتی ہے۔
چینی کے سرکاری خبر رساں ادارے شنہوا نے بدھ سات اپریل کے روز بتایا کہ ترکستانی نسل کے ان دونوں ایغور مسلم شہریوں کو یہ سزا ‘علیحدگی پسندانہ سرگرمیوں‘ اور ‘رشوت خوری‘ کے جرائم میں سنائی گئی ہے۔ سنکیانگ کے ان سابق اعلیٰ حکومتی عہدیداروں کے نام شیرزاد بہاؤالدین اور ستار سعود بتائے گئے ہیں۔ ان کے خلاف فیصلہ ایسے ایغور اقلیتی شہریوں کو ‘قومی سلامتی کے لیے خطرات‘ کی بنیاد پر سنائی جانے والی سزاؤں کی تازہ ترین مثال ہے۔
بیجنگ حکومت ایسے شہریوں کے خلاف قانونی کارروائیوں کو اپنی ‘دو چہروں والے سرکاری عہدیداروں کے خلاف مہم‘ کا نام دیتی ہے، کیونکہ ایسے حکام ‘خطے (سنکیانگ) میں چینی حکمرانی کو نقصان پہنچانے کی کوششوں‘ کے مرتکب ہوتے ہیں۔
سنکیانگ کی علاقائی حکومت کی ویب سائٹ پر شائع کردہ تفصیلات کے مطابق صوبائی محکمہ انصاف کے سابق سربراہ شیرزاد بہاؤالدین کو سزائے موت اس لیے سنائی گئی کہ وہ ‘ملک کو توڑنے کی کوشش‘ کے مرتکب ہوئے تھے۔ عدالتی فیصلے کے مطابق بہاؤالدین مشرقی ترکستان کی اسلامی تحریک یا ETIM نامی دہشت گرد گروپ کے ساتھ ملی بھگت کے مرتکب اس طرح ہوئے کہ انہوں نے 2003ء میں اس گروہ کے ایک سرکردہ رکن سے ملاقات کی تھی۔
اس کے علاوہ عدالت نے شیرزاد بہاؤالدین کو ‘غیر ملکی طاقتوں کو معلومات کی غیر قانونی فراہمی‘ کا مجرم اور اپنی بیٹی کی شادی پر ‘غیر قانونی مذہبی سرگرمیوں‘ کا مرتکب بھی قرار دیا۔
مشرقی ترکستان کی اسلامی تحریک نامی گروہ کو امریکا نے گزشتہ برس نومبر میں غیر ملکی دہشت گرد تنظیموں کی اپنی فہرست سے یہ کہہ کر خارج کر دیا تھا کہ ایسے کوئی قابل اعتبار شواہد موجود نہیں کہ ETIM کا وجود آج بھی باقی ہے۔
سنکیانگ میں صوبائی محکمہ تعلیم کے سابق سربراہ ستار سعود کو سنائی گئی سزائے موت اس ‘الزام کے ثابت ہو جانے‘ کے باعث سنائی گئی کہ انہوں نے ایغور زبان میں شائع ہونے والی نصابی کتب میں ‘نسلی اور لسانی علیحدگی پسندی، تشدد، دہشت گردی اور مذہبی انتہا پسندی سے متعلق مواد‘ شامل کیا تھا۔
عدالت نے ان نصابی کتب کا تعلق سنکیانگ کے صوبائی دارالحکومت ارومچی میں 2009ء میں کیے گئے ان خونریز حملوں سے بھی جوڑا، جن میں کم از کم 200 افراد مارے گئے تھے۔
سنکیانگ کی صوبائی عدالت کے نائب سربراہ وانگ لانگ تاؤ کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے چینی نیوز ایجنسی شنہوا نے لکھا، ”ملزم ستار سعود نے ایغور زبان میں پرائمری اور ہائی اسکولوں کی نصابی کتب کی تیاری اور اشاعت سے متعلق اپنی ذمے داریوں کا غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے ملک کو توڑنے کی کوشش کی۔ ان کوششوں کا آغاز 2002ء میں کیا گیا۔‘‘
عدالت کے مطابق، ’’ستار سعود نے دیگر حکام کو کئی ایسے افراد کے انتخاب کی ہدایت کی، جو علیحدگی پسندانہ نظریات کے حامل تھے اور جنہیں ستار سعود نے ان درسی کتابوں کی تیار کنندہ ٹیم میں شامل کرنے کا حکم دیا تھا۔‘‘
بیجنگ حکومت ان الزام کی مسلسل تردید کرتی ہے کہ وہ سنکیانگ میں ایغور اور دیگر مسلم نسلی اقلیتوں کی نسل کشی یا ان کے بنیادی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں کی مرتکب ہو رہی ہے۔ چینی حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ محض ایسے اقدامات کر رہی ہے، جو ‘پرتشدد انتہا پسندی کو روکنے‘ کے لیے ناگزیر ہیں۔
اس پس منظر میں چین کی طرف سے مختلف فیکٹریوں میں ایغور کارکنوں سے کرائی جانے والی جبری مشقت کے الزامات کی نفی بھی کی جاتی ہے اور بیجنگ ان امریکی پابندیوں کو بھی مسترد کرتا ہے، جو امریکا نے سنکیانگ میں ‘جابرانہ اقدامات‘ کی وجہ سے مختلف چینی حکام پر لگا رکھی ہیں۔
ہُوئی یا خُوذُو مسلمان اکثریتی شہر لِنشیا کو ’چھوٹا مکہ‘ کے نام سے چین میں شہرت حاصل ہے۔ اس شہر میں چھوٹی بڑی 80 مساجد واقع ہے۔ یہ شہر دریائے ڈاشیا کے کنارے پر آباد ہے۔ ایغور مسلم دانشور خُوذُو مسلم کمیونٹی کو چین کی ہان نسل کے مسلمان قرار دیتے ہیں۔
انسانی حقوق کے لیے سرگرم مختلف بین الاقوامی تنظیموں کے مطابق چین نے ایک ملین سے زائد ایغور اقلیتی مسلمانوں کو جیلوں کی طرح کے ایسے حراستی مراکز میں بند کر رکھا ہے، جنہیں حکومت ‘دوبارہ تعلیم کے مراکز‘ قرار دیتی ہے۔ ایسے مراکز میں بند ایغور مسلمانوں کو اپنی مذہبی اور اسلامی ثقافتی روایات ترک کر دینے کی ترغیب دی جاتی ہے۔
اس کے علاوہ ان باشندوں کو وہاں چین کی مرکزی اور سب سے بڑی زبان مینڈیرین پڑھائی جاتی ہے اور ان سے ملک میں حکمران کمیونسٹ پارٹی اور صدر شی جن پنگ کے وفادار رہنے کا حلف بھی لیا جاتا ہے۔
چین مین اب تک ایغور نسل کے بہت سے ماہرین تعلیم کو بھی علیحدگی پسندی کے الزامات کے تحت گرفتار کیا جا چکا ہے۔