چین سے پریشان یورپی یونین اور امریکا کا نیا ٹیکنالوجیکل اتحاد

 EU-US Joint Force Tech

EU-US Joint Force Tech

امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) ٹیکنالوجی کے افق پر چین کی قوت بظاہر بڑھتی جا رہی ہے۔ یورپی یونین اور امریکا اس پیش رفت سے پریشان ہیں اور یہ ٹیکنالوجی کے میدان میں متحد ہو کر چین کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں۔

سن 2020 میں مختلف اشیاء میں استعمال ہونے والی الیکٹرانک چِپس (سیمی کنڈکٹرز) کی مانگ بہت زیادہ تھی کہ اچانک ان کی قلت پیدا ہو گئی۔ یہ الیکٹرانک چِپس اسمارٹ فون سے لے کر کاروں تک میں استعمال ہوتے ہیں۔

یہ کورونا وبا کے آغاز کا دور تھا۔ ان کی قلت کے بعد کئی فیکٹریوں کو الیکٹرانک کنٹرول یونٹس (ای سی یوز) کا اپنا پیداواری سلسلہ بند کرنا پڑا جبکہ متعدد کمپنیوں نے مصنوعات سازی کو مؤخر کر دیا۔ اسی طرح مارکیٹ میں کمپیوٹر بھی تاخیر سے فراہم کیے جانے لگے۔

ایسی گھمبیر صورت حال میں امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی سے لے کر یورپی یونین کے ملک جرمنی تک پریشانی کی لہر دوڑ گئی تھی اور ان خاص مگر اہم چِپس (سیمی کنڈکٹرز) کی پروڈکشن کے معاملے پر غور و فکر شروع ہوا۔

ڈیڑھ برس گزرنے کے بعد الیکٹرانک چِپس کی قلت کم تو ہوئی ہے مگر طلب کے مطابق رسد پھر بھی نہیں ہے۔ اس تناظر میں امریکی شہر پِٹسبرگ میں بدھ انتیس ستمبر کو یورپی یونین اور امریکا کے درمیان ایک مذاکراتی عمل شروع ہو گیا ہے۔ یہ امریکا اور یورپی یونین کی ٹریڈ اینڈ ٹیکنیکل کونسل (ٹی ٹی سی) کا پہلا دو روزہ اجلاس ہے۔

اس اجلاس کی مناسبت سے وائٹ ہاؤس سے جاری کردہ بیان میں واضح کیا گیا ہے کہ واشنگٹن حکومت امریکا اور ای یو کی پارٹنر شپ کو مضبوط بنیاد پر استوار کرنا چاہتی ہے۔ اس پارٹنرشپ کا مقصد الیکٹرانک چِپس کی پیداوار کے حوالے سے خود انحصاری پیدا کرنا ہے۔

ایسی گرمجوشی یورپی یونین میں بھی پائی جاتی ہے لیکن بین الاقوامی امور کے مبصرین کا خیال ہے کہ فریقین کو ایک مناسب پارٹنرشپ کے لیے کئی قسم کے اختلافی امور کو ختم کرنا ہو گا۔

اس تناظر میں یہ بھی کہا گیا کہ الیکٹرانک چِپس کی قلت نے کئی ممالک کے پالیسی سازوں کی آنکھیں ضرور کھولی ہیں لیکن شراکت کی راہ آسان نہیں اور ٹی ٹی سی کے دو روزہ اجلاس میں کسی بڑے بریک تھرو کا امکان بھی نہیں۔ ایسا بھی ہے کہ امریکا اور یورپی یونین ٹیکنیکل ضوابط پر کئی برسوں سے اختلافات ختم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

اس اجلاس میں الیکٹرانک چِپس کے علاوہ مصنوعی ذہانت یا آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے قواعد و ضوابط کی تیاری بھی ایک اہم موضوع ہے۔ ایک اور معاملہ سائبر سکیورٹی کا ہے۔ دنیا اب ایک نئے انداز سے ڈیجیٹل ہوتی جا رہی ہے اور اس کے فروغ کی وجہ سے امریکا اور یورپی اقوام کے اداروں کی سائبر سکیورٹی وقت کی بڑی ضرورت بن چکی ہے۔

جرمن تھنک ٹینک آسپین انسٹیٹیوٹ کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر اشٹورمی آنیکا مِلڈنر کا کہنا ہے کہ چین کے حوالے سے مغرب کی موجودہ پالیسی بھی پیچیدہ ہے، ایک جانب یہ چین سے خطرہ محسوس کرتے ہیں اور دوسری طرف اس کے ساتھ کام کرنے کی خواہش بھی رکھتے ہیں۔

مِلڈنر کا خیال ہے کہ موجودہ حالات میں یہ امکان موجود ہے کہ ٹی ٹی سی بحر اوقیانوس کے آرپار کی بڑی خواہشات کی تکمیل کے لیے کوئی مشترکہ راستہ ہموار کر سکے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس وقت کی دنیا ماضی والی نہیں رہی اور اس تبدیلی کی کلیدی وجہ چین ہے۔

اس وقت ڈیجیٹل دنیا میں استعمال ہونے والی پیچیدہ الیکٹرانک چِپس بنانے والی کمپنیاں تیزی کے ساتھ چین خریدتا جا رہا ہے اور یہ بھی ٹی ٹی سی کی آنکھیں کھولنے کی اہم وجہ قرار دی گئی ہے۔

بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں کا کاروباری غلبہ ختم کرنے کی قانون سازی

الیکٹرانک چِپس کی تیاری کئی پیچیدہ مراحل کے بعد سامنے آتی ہے اور یہ انتہائی مہنگی بھی ہے۔ اس باعث ایک فیکٹری کے قیام پر اربوں ڈالر کی لاگت آتی ہے۔ اب ان کی تیاری کے حوالے سے یورپی اقوام میں سنجیدگی دکھائی دیتی ہے۔