گزشتہ روز پاکستان میں چینی بحران سے متعلق انکوائری کمیشن کی حتمی رپورٹ سامنے آگئی ہے ،رپورٹ کی تفصیلات میں جانے سے پہلے اس بات کو سراہا جانا ضروری ہے کہ وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے ابتدائی رپورٹ میں جماعت کے چند انتہائی قریبی افراد کے نام سامنے آنے کے باوجودحتمی رپورٹ مکمل ہوتے ہی اُسے بھی منظر عام پر لانے کا فیصلہ کیا،فاقی کابینہ نے چینی بحران کی انکوائری رپورٹ کو منظر عام پر لانے کے فیصلہ کی توثیق کی ،اگر وطن عزیز پاکستان کی سیاسی تاریخ کا جائزہ لیں تو سینکڑوں انکوائری کمیشن بنائے گئے جن کی رپورٹ کے انتظار میں سالہا سال بیت جانے سے عوام اُنکو بھول گئی ،وقت گزر جانے کے بعد کوئی نیا انکوائری کمیشن کسی اور واقعہ کے لئے بنا دیا جاتھا ،لیکن عوام اکثر رپورٹس میں بیان کئے گئے حقائق سے بے خبر رہی اگر کہیں کسی کمیشن کی رپورٹ سامنے آئی بھی تو اُس میں ذمہ داران کے خلاف کاروائی ایک خواب ہی رہی ، وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی شہزاد اکبر نے گزشتہ روزاسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے رپورٹ کو جاری کیا۔
شہزاد اکبر نے پریس کانفرنس میں کہا کہ کسانوں کیساتھ مل مالکان آفیشل بینکنگ کرتے رہے ،2018ـ2019 میں ساڑھے 12 روپے فی کلو کا فرق سامنے آیا ،2019ـ2020 میں چینی کی فی کلو لاگت میں 16 روپے کا فرق پا یا گیا ،کمیشن رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ شواہد ملے ہیں کہ تمام شوگر ملز نے دو دو کھاتے رکھے ہوئے ہیں، شوگر ملز مالکان نے ایک کھاتا سرکار اور دوسرا کھاتا سیٹھ کو دکھانے کیلئے رکھا ہوتا تھا ،شوگر کمیشن کی تحقیقات میں اکائونٹنگ فراڈ بھی سامنے آئے ہیں،2018میں وفاق نے 15.20 ارب روپے کی سبسڈی دی،2018میں وفاق نے 15.20 ارب روپے کی سبسڈی دی ،شہزاد اکبر نے کہا کہ کمیشن نے لکھ دیا ہے کہ اومنی گروپ کو فائدہ دینے کیلئے سبسڈی دی گئی،افغانستان کو چینی کی برآمد مشکوک ہے، سانچ کے قارئین کرام !رواں سال کے اوائل میں انکوائری ایکٹ 2017 کے تحت انکوائری کمیشن تشکیل دیا جس کے سربراہ واجد ضیا تھے انکوائری کمیشن نے جو کام کیا اسے ایک حتمی رپورٹ کی صورت میں کابینہ کے سامنے پیش کیا گیا، جس کے لیے آج خصوصی اجلاس بلایا گیا تھا۔
واجد ضیا نے کابینہ کو رپورٹ کے بنیادی نکات اور سفارشات سے متعلق بریفنگ دی بعد ازاں رپورٹ کو عوام کے سامنے پیش کردیا گیا ۔رپورٹ میں حیران کن انکشافات ہوئے ہیں جو گنے کی خریداری سے لے کر چینی کی تیاری، اس کی فروخت اور برآمد تک ہیں، شہزاد اکبر نے پریس کانفرنس میں کہا کہ تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی کہ کس طرح کسان کو تسلسل کے ساتھ نقصان پہنچایا گیا اور لوٹا گیا، رپورٹ میں ہے کہ شوگر ملز گنا فراہم کرنے والے کسانوں کو انتہائی کم قیمت ادا کرتی ہیںمعاون خصوصی شہزاد اکبر نے کہا کہ شوگر کمیشن نے فرانزک آڈٹ کے بعد پچھلے سالوں کا جو تخمینہ لگایا ہے تو اس کے مطابق 2019 تک 140 روپے سے کم قیمت میں گنا خریدا گیا اور 2019 میں کمیشن بننے کے بعد گنے کی خریداری مہنگی ہوئی تو اس کی زیادہ قیمت کے اثرات کا اطلاق چینی کی قیمت میں اضافے پر نہیں ہوتا رپورٹ میں کٹوتی کے نام پر کسانوں کے ساتھ زیادتی کی نشاندہی کی گئی، تقریباً تمام شوگر ملز گنے کے وزن میں 15سے لے کر 30 فیصد تک کٹوتی کرتی ہیں جس کا نقصان کسانوں کو ہوتا ہے اور مل مالکان کو فائدہ ہوتا ہے۔شہزاد اکبر نے مزیدکہا کہ کچھ ملز میں کچی پرچی کا نظام ہے۔
گنے کی خریداری کے لیے سی پی آر کے بجائے کچی پرچی پر ادائیگیاں کی جاتی ہیں جہاں قیمت 140 روپے سے بھی کم ہے۔ بیچ میں کمیشن ایجنٹس کو استعمال کیا جاتا ہے جن کے ذریعے کسانوں سے گنا اور زیادہ کم دام میں خریدا جاتا اور نقصان کسان کو ہوتا ہے مشکل سے کاشتکاری کا نظام چل رہا ہے، ایک نظام کے تحت اس سے کم قیمت پر گنا خریدا جاتا ہے اور چینی کی پیداواری لاگت میں قیمت زیادہ ظاہر کی جاتی ہے انہوں نے کہا کہ مل مالکان جب چینی کی پیداواری لاگت ظاہر کرتے ہیں تو گنے کی قیمت اس حوالے سے مختص نرخ سے بھی زیادہ ظاہر کرتے ہیں جبکہ کمیشن نے وہ شواہد معلوم کیے ہیں جہاں گنا کم قیمت میں خرید کر اور ساتھ ساتھ کٹوتی کرکے مزید کم ادائیگی کی جاتی ہے۔شہزاد اکبر نے انکوائری کمیشن کی رپورٹ میں شامل 3 سالوں کے اعداد و شمار بیان کرتے ہوئے کہا کہ ان قیمتوں میں پیداواری لاگت میں ٹیکس شامل نہیں ہے، شوگر ملز نے 18ـ2017 کی جو پیداواری لاگت دی وہ 51 روپے فی کلو جبکہ فرانزک آڈٹ نے اس کی قیمت 38 روپے متعین کی ہے جو تقریباً 13 روپے کا فرق ہے انہوں نے کہا کہ 19ـ2018 میں شوگر ملز ایسوسی ایشن نے چینی کی فی کلو قیمت 52 روپے 6 پیسے متعین کی جبکہ کمیشن کی متعین کردہ قیمت 40 روپے 6 پیسے ہے جو ساڑھے 12 روپے کا فرق ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ 20ـ2019 میں چینی کی متعین کردہ قیمت 62 روپے فی کلو ہے جسے کمیشن نے 46 روپے 4 پیسے متعین کیا ہے اور یہ واضح فرق ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ گنا کم قیمت پر خرید کر زیادہ قیمت ظاہر کی جاتی ہے اور اس اضافی قیمت کو پیداواری لاگت میں شامل کیا جاتا ہے اور اس سے پیدا ہونے والی مصنوعات بگاس (گنے کی پھوک) اور مولیسس دونوں کی قیمت کو کم ظاہر کیا جاتا ہے جب شوگر کمیشن نے صحیح طریقے سے تعین کیا تو پیداواری لاگت میں فرق آگیا۔معاون خصوصی شہزاد اکبر نے کہا کہ پچھلے 5 سالوں میں چینی کی برآمد پر 29 ارب روپے کی سبسڈی دی گئی، 2015 میں 6 ارب 50 کروڑ روپے کی سبسڈی دی گئی، 2016 میں 6 ارب 50 کروڑ روپے، 18ـ 2017 میں کوئی سبسڈی نہیں دی گئی، 2018 میں وفاق 15 ارب 50 کروڑ روپے کی سبسڈی دی اور 4 ارب 10 کروڑ روپے کی اضافی سبسڈی یعنی 9.3 روپے فی کلو کی سبسڈی سندھ حکومت نے دی۔انہوں نے کہا کہ انکوائری کمیشن نے لکھا ہے کہ سندھ کی جانب سے صرف اومنی گروپ کو فائدہ پہنچانے کے لیے سبسڈی دی گئی، جب وفاق کی جانب سے سبسڈی مل رہی ہے تو اس میں 9.3 روپے کی سبسڈی دی جارہی ہے اور سندھ میں سب سے زیادہ شیئر اومنی گروپ کا تھا۔شھزاد اکبر نے کہا کہ ایک ٹرک 15 سے 20 ٹن وزن لے کرجاسکتا ہے، لیکن ظاہر یہ کیا گیا کہ ایک ایک ٹرک پر 70 سے 80 ٹن چینی افغانستان لے جائی گئی یہ ایسا مذاق ہے جو آج تک کسی نے نوٹ نہیں کیا، افغانستان میں چینی کی برآمد مشکوک ہے اور اس حوالے سے ٹی ٹی موجود ہے۔
انہوں نے کہا کہ شوگر ملز کا آڈٹ کیا گیا جن میں سے 6 بڑے گروہ جو پاکستان کی چینی کی 51 فیصد پیداوار کو کنٹرول کرتے ہیں اور ان کے پیداواری حجم کی بنیاد پر آڈٹ کیا گیا۔شہزاد اکبر نے کہا کہ سب سے بڑا گروپ جے ڈی ڈبلیو ہے جن کا چینی کی پیداوار میں 20 فیصد کے قریب حصہ، آر وائے کے کا 12فیصد، المعیذ گروپ کا 6.8 فیصد، تاندیا والا کا 5 فیصد، شریف گروپ کا 4.5 فیصد اور اومنی گروپ کا 1.6 فیصد حصہ ہے، فرانزک آڈٹ میں سب سے پہلے الائنس مل کو شارٹ لسٹ کیا گیا جو آر وائے کے گروپ کی مل ہے، اس میں پاکستان مسلم لیگ قائد (پی ایم ایلـکیو) کے رہنما مونس الہٰی کے مختلف کمپنیوں کے ذریعے 34 فیصد شیئرز اور عمر شہریار کے 20 فیصد شیئرز ہیں۔ الائنس مل نے 2014 سے 2018 تک کسانوں کو رقم کی ادائیگی میں 11 سے 14 فیصد کٹوتی کی اور انہیں 97 کروڑ روپے کا نقصان پہنچایا گیا، اسی دوران انڈر رپوٹڈ چینی کی فروخت بھی شامل ہے جو بے نامی خریداروں کو بیچی گئی، انہوں نے کہا کہ رپورٹ میں پاکستان پینل کوڈ کی خلاف ورزیاں بھی شامل ہیں۔معاون خصوصی شھزاد اکبرنے کہا کہ جے ڈی ڈبلیو شوگر مل میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی ) کے رہنما جہانگیر ترین کے 21 فیصد حصص ہیں، علی خان ترین کے 13 فیصد، احمد محمود کے 26 فیصد شیئرز ہیں اور یہ واحد کمپنی ہے جس میں 24 فیصد شیئر عوام کا ہے، انہوں نے کہا کہ جے ڈی ڈبلیو نے 2 کھاتے رکھے تھے، اوور انوائسنگ اور انڈر رپورٹنگ بھی پائی گئی، جے ڈی ڈبلیو نے کرشنگ یونٹس میں اضافہ کیا، بگاس اور مولیسس کی فروخت کو انڈر انوائس کیا جس کی وجہ سے پیداواری لاگت میں 25 فیصد اضافہ ہواانہوں نے کہا کہ اس کے ساتھ ہی رپورٹ میں کارپوریٹ فراڈ بھی سامنے آیا اور جے ڈی ڈبلیو کی جانب سیفارورڈ سیلز، بے نامی فروخت اور سٹہ کے شواہد سامنے آئے ہیںمعاون خصوصی نے کہا کہ شہباز شریف فیملی کی العربیہ مل کا بھی فرانزک آڈٹ کیا گیا جس میں ڈبل اکاؤنٹنگ اور دو کھاتوں کے شواہد موجود ہیں اور انہوں نے ‘آر’ کے نام سے رپورٹڈ اور ‘این آر’ کے نام سے نان رپورٹڈ کھاتے رکھے ہوئے تھے۔انہوں نے کہا کہ العربیہ مل میں کچی پرچیوں کے ذریعے 40 کروڑ روپے کا فراڈ اور مارکیٹ میں ہیرا پھیری کی گئی۔
چینی بحران سے متعلق رپورٹ (21 مئی2020) کو وفاقی کابینہ کے اجلاس میں پیش کی گئی جس میں وزیراعظم عمران خان نے اسے عوام کے سامنے لانے کا فیصلہ کیایاد رہے کہ شوگر فرانزک کمیشن (ایس ایف سی) کی جانب سے گزشتہ برس ہونے والے چینی بحران سے متعلق رپورٹ اپریل میں کے اواخر میں جمع کروانی جانی تھی تاہم بعد ازاں رپورٹ مرتب کرنے کے لیے کمیشن نے مزید 3 ہفتے کی مہلت کی درخواست کی تھی،9 مئی کو پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر نائب صدر اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان کو ثبوت پیش کرنے چینی بحران کی تحقیقات کے لیے تشکیل دیے گئے تحقیقاتی کمیشن کے سامنے پیش ہوئے تھے۔شاہد خاقان عباسی نے چینی کے بحران کی تحقیقات کے لیے قائم انکوائری کمیشن کے سربراہ اور وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے چیئرمین واجد ضیا کو بحران سے متعلق شواہد فراہم کرنے کے لیے خط لکھا تھاسابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے مطالبہ کیا تھا کہ ذمہ داری کے تعین کے لیے وزیراعظم عمران خان اور اسد عمر سے بھی تحقیقات کی جانی چاہیے جس کے بعد اسد عمر12 مئی کو کمیشن میں پیش ہوئے وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر نے اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) اور وفاقی کابینہ کی جانب سے چینی اور اس کی برآمدات کے حوالے سے لیے گئے فیصلوں پر اپنا بیان ریکارڈ کروادیاتھا ۔کمیٹی کی رپورٹ میں چینی کی برآمد اور قیمت میں اضافے سے زیادہ فائدہ اٹھانے والوں کے نام بھی سامنے لائے گئے ہیں جس کے مطابق اس کا سب سے زیادہ فائدہ جے ڈی ڈبلیو (جہانگیر خان ترین) کو ہوا اور اس نے مجموعی سبسڈی کا 22 فیصد یعنی 56 کروڑ 10 لاکھ روپے حاصل کیارپورٹ کے مطابق اس کے بعد سب سے زیادہ فائدہ آر وائے کے گروپ کو ہوا جس کے مالک مخدوم خسرو بختیار کے بھائی مخدوم عمر شہریار خان ہیں اور انہوں نے 18 فیصد یعنی 45 کروڑ 20 روپے کی سبسڈی حاصل کی۔
اس گروپ کے مالکان میں چوہدری منیر اور مونس الہٰی بھی شامل ہیں جبکہ اس کے بعد تیسرے نمبر پر زیادہ فائدہ المْعیز گروپ کے شمیم احمد خان کو 16 فیصد یعنی 40 کروڑ 60 لاکھ روپے کی صورت میں ہوارپورٹ میں بتایا گیا کہ شمیم احمد خان کی ملکیت میں موجود کمپنیوں نے گزشتہ برس چینی کی مجموعی پیداوار کا 29.60 فیصد حصہ برآمد کیا اور 40 کروڑ 60 لاکھ روپے کی سبسڈی حاصل کی۔رپورٹ کے مطابق اومنی گروپ جس کی 8 شوگر ملز ہیں اس نے گزشتہ برس برآمداتی سبسڈی کی مد میں 90 کروڑ 10 لاکھ روپے حاصل کیے، خیال رہے کہ اومنی گروپ کو پی پی پی رہنماؤں کی طرح منی لانڈرنگ کیس کا بھی سامنا ہے۔سانچ کے قارئین کرام ! پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی جانب سے رپورٹ کو منظر عام پر لانا یقیناقابل تعریف ہے کیونکہ موجودہ حکومت پر پہلے دن سے یہ الزام ہے کہ اس میں شامل وہ بااثر لوگ ہیں جنکے ہاتھ کرپشن سے پاک نہ ہیں اپوزیشن ارکان نے بارہا کہا کہ یہ حکومت انصاف کیسے کر سکتی ہے جس کے ساتھ ایسے لوگ ہیں جن پر کرپشن کے الزامات ہیں وزیر اعظم عمران خان نے چینی بحران پر حتمی رپورٹ عوام کے سامنے پیش تو کر دی لیکن اس بحران کے ذمہ داروں کے خلاف حقیقی کاروائی کا انتظار عوام کو ہے تاکہ وطن عزیز پاکستان میں مختلف مافیا کے خلاف بھر پور کاروائیاں عمل میں آسکیں ٭۔