چینی ہیکرز نے امریکی کمپنیوں کو نشانہ بنایا، مائیکرو سافٹ

Hackers

Hackers

امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) امریکی کمپنی مائیکرو سافٹ کا کہنا ہے کہ ہیکروں نے اس کے ای میل سافٹ ویئر سرور میں ایک بَگ کا فائد اٹھایا تاہم اس سے نجی اکاؤنٹس کے بجائے ادارے متاثر ہوئے ہیں۔

امریکی کمپنی مائیکرو سافٹ نے منگل دو مارچ کو بتایا کہ چینی حمایت یافتہ ہیکرز کے ایک گروپ نے ان کی کمپنی کے ای میل سرور میں ایک نقص کا فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکا میں واقع اداروں کو نشانہ بنا یا۔

اطلاعات کے مطابق چین سے آپریٹ کرنے والے ہیکروں کے اس گروپ نے متعدی امراض کی تحقیق کے ادارے، قانونی اداروں، یونیورسٹیوں اور دیگر نجی اداروں جیسی متعدد امریکی کمپنیوں سے متعلق معلومات ہیک کرنے کی کوشش کی۔

مائیکرو سافٹ نے ہیکرزکے گروپ کو ”انتہائی ہنر مند اور نفیس” قرار دیتے ہوئے اس گروپ کا نام ”ایچ اے ایف این آئی یو ایم” (ہافنیم) بتا یا۔ کمپنی کا کہنا ہے اس نے اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے اپنی سائیبر سکیورٹی بڑھا دی ہے۔

مائیکرو سافٹ کا کہنا تھا کہ ”ایچ اے ایف این آئی یو ایم” (ہافنیم) نے رسائی کے لیے بڑی چالاکی سے اس کے ایکسچینج سرور میں دھوکہ دہی سے کام کیا۔

کمپنی کے مطابق چونکہ بیشتر ادارے عموما ًکام کی ای میل اور کیلنڈر سروسز کے لیے ایکسچینج سرور سافٹ ویئر کا استعمال کرتی ہیں۔ اس لیے، ہیکنگ سے ذاتی ای میل اکاؤنٹس یا مائیکروسافٹ کی کلاؤڈ پر مبنی خدمات متاثر نہیں ہوتی ہیں۔

ہیکرز نے اپنے آپ کو کسی کی نگاہ میں آنے سے بچانے کے لیے مبینہ طور پر امریکا میں لیز پر رکھے ورچوئل نجی سرور کا استعمال کیا۔مائیکرو سافٹ کے مطابق اس گروپ نے کسی ایسے شخص کی نقل کرنے کی کوشش کی جس کو ٹارگٹ سرور تک رسائی حاصل تھی اور مختلف اداروں کے نیٹ ورک سے معلومات ہیک کرنے کے لیے انہیں فاصلے سے ہی کنٹرول کیا۔

تاہم کمپنی نے ہیکنگ سے متاثر ہونے والے اداروں کے نام یا پھر ایسی تفصیلات نہیں بتائیں کہ اس سے کتنی کمپنیاں متاثر ہوئی ہیں۔

مائیکروسافٹ کا کہنا ہے کہ سائیبر سکیورٹی کے لیے معروف ورجینیا کی کمپنی ‘ولوکسٹی’ نے اس سائیبر حملے کہ پتہ لگانے میں ان کی کافی مدد کی۔

دی اکانومسٹ کے تحقیقی ادارے کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق آئندہ پانچ برسوں کے لیے یہ تینوں ممالک ایک جتنے نمبر حاصل کر کے مشترکہ طور پر پہلے نمبر پر ہیں۔ سن 2013 تا 2017 کے انڈیکس میں فن لینڈ پہلے، سویڈن دوسرے اور آسٹریلیا تیسرے نمبر پر تھا۔

اس کمپنی کے سربراہ اسٹیون اڈائر نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا کہ وہ گزشتہ جنوری سے ہی ایسی مشتبہ سرگرمیوں پر نظر رکھے ہوئے تھے۔

انہوں نے کہا، ”اس وقت جتنی خراب صورت حال ہے، میرے خیال سے اس سے بہت زیادہ برا حال ہونے والا ہے۔

گزشتہ کئی برسوں کے دوران ہیکنگ کی ایسے متعدد واقعات کے بعد امریکا نے اپنی سائیبر سکیورٹی کو مزید بہتر بنانے کی کوشش کی ہے۔

گزشتہ برس صدر ٹرمپ نے کئی حکومتی اداروں کو نشانہ بنانے کے لیے چین پر ہیکنگ کا الزام عائد کیا تھا جبکہ ان کی انتظامیہ کے ایک اعلی عہدیدار نے اس کے لیے روس کومورد الزام ٹھہرایا تھا۔

سن 2013 میں امریکی سائیبر سکیورٹی کمپنیوں نے ایک برس کے دوران تقریباً 150 ایسے ہیکنگ حملوں کا پتہ لگایا تھا اور اس کا الزام چینی فوج پر عائد کیا تھا۔ تاہم چین ایسی کسی بھی سرگرمی میں ملوث ہونے یا ایسے تمام الزامات سے ہمیشہ انکار کرتا رہا ہے۔