شالا نظر نہ لگے

Pakistan Army

Pakistan Army

تحریر : مسز جمشید خاکوانی
چینی رہنما نے پاک فوج کی کارکردگی پر اطمنان کا اظہار کیا ہے چینی قیادت کا اطمنان اس امر کی دلیل ہے کہ پاک فوج اپنی زمہ داریاں پوری کرنے کے لیئے پوری طرح چوکس ہے ،موجودہ حکومت پر بھی اس کی بھاری زمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ان منصوبوں کو جلد سے جلد پورا کرنے میں کوئی رکاوٹ نہ نے دے اور اس کے ثمرات عوام تک بھی پہنچیں نہ کہ چند لوگوں تک۔بھارتی واویلا بھی جاری ہے ویسے تو بھارت نے کبھی اچھے پڑوسی ہونے کا ثبوت نہیں دیا لیکن اس بار تو اس کے دل پہ ہاتھ پڑا ہے حال ہی میں نریندر مودی صاحب فرانس،کنیڈا،جرمنی سے معاہدے کر کے آئے ہیں ،بھارت مسلسل اپنے دفاع میں لگا رہتا ہے جبکہ پاکستان جو اندرونی و بیرونی یلغار میں ہے اپنے دفاع کے لیئے جو بھی اقدام لیتا ہے بھارت میں صف ماتم بچھ جاتی ہے۔

آخر ان کو یہ سمجھ کیوں نہیں آتی کہ ہمارا استحکام ان کے بلکہ پوری دنیا کے مفاد میں ہے ہم تو وہ ہیں جو اپنا کان نہیں سمبھالتے کتے کے پیچھے بھاگ پڑتے ہیں ۔مجھے اپنے پاکستان سے بہت پیار ہے مگر پاکستانیوں سے بہت شکایت ہے یہاں ہر کوئی اپنی ڈیڈھ اینٹ کی الگ مسجد بنا کر فخر کرتا ہے ،اس سے سروکار نہیں کہ دنیا کی نظر میں ہمارا کیا امیج بن رہا ہے یا ہم کیا کھو رہے ہیں ۔ایک واحد فوج ہے جس کا اعتبار ہے جس پہ سب کا انحصار ہے ،آخر فوج کیا کیا سنبھالے گی کیا حکومتیں صرف نام کی ہیں؟اب تک ہر چیز فوج کے کریڈٹ پر ہے میں کہتی ہوں شالا نظر نہ لگے اور ہماری فوج کی طرح دیگر ادارے بھی مال بنانے کے علاوہ اپنی زمہ داریوں کو سمجھیں اور جانیں کہ ملک میں کیسے کیسے ظلم ہو رہے ہیں نئی نسل کے ساتھ جو ہمارا مستقبل ہے

کچھ روز پہلے ایک شخص نے فیس بک پہ ان بکس مجھے ایک وڈیو میسج کی۔جب میں نے لنک اوپن کیا تو عجیب نظارہ تھا نیلے رنگ کے شٹل کاک برقعے میں چھپی ایک عورت کی آواز آئی کہ میں ایک کولیفائڈ ڈاکٹر ہوں میں نے باہر تعلیم حاصل کی اور مکمل ریسرچ کرنے کے بعد پکو بتا رہی ہوں کہ پولیو ویکسین مسلمانوں کے خلاف بہت بڑی سازش ہے نہ صرف پولیو ویکسین بلکہ تما م بیماریوں کی ویکسینیشن پروگرام ہمارے بچوں کی موت اور نسل کشی کا سامان ہے ،اس کے بعد اس لڑکی یا عورت نے اپنی ریسرچ پر بات کی بڑے مستند حوالے دیئے اور ایسی باتیں جس سے لگتا تھا کہ خاصی محنت کی گئی ہے اور بات اتنی سادہ بھی نہیں ہے میہ وڈیو کافی عرصے سے سوشل میڈیا پہ زیر گردش ہے اس پر اچھے خاصے کمنٹ تھے وہ بھی زیادہ تر اس کے حق میں ،مجھے یہ وڈیو اپنی وال پہ پوسٹ کرنے کی ہدایت کے ساتھ ساتھ کمنٹ کرنے کی ہدایت بھی دی گئی تھی،خیر میں نے وڈیو ڈیلیٹ کر دی بندہ بھی بلاک کر دیا۔

Polio Case

Polio Case

لیکن ج ٹی وی پر چلتی ایک خبر دیکھ کر دل شدید پریشانی میں گھر گیا ہے پشاور کے نواحی علاقے شیخ محمدی میں آٹھ ماہ کے ایک بچے حضرت گل میں پولیو وائرس کی تصدیق ہو گئی ہے اور یہ پانچواں کیس سامنے آیا ہے اس عورت کا یہ بھی کہنا تھا کہ آپ سوچیں ہمارے بچوں کو ڈرون حملوں میں مارنے والے امریکیوں کو ہم سے اتنی ہمدردی کیوں ہے کہ وہ اربوں کی ویکسین مفت دے رہا ہے ،اس کا استدلال اپنی جگہ مضبوط تھا لیکن وہ میرے سامنے ہوتی تو میں اس سے پوچھتی جب ایئرپورٹس پر ہر چھوٹا بڑا چاہے وہ پرائم منسٹر ہی کیوں نہ ہو بیٹھا پولیو کے قطرے پی رہا ہوتا ہے تو کیا اس تضحیک سے نسل کشی نہیں ہوتی ۔وہ لوگ جب آپکو پڑھنے کے لیئے ویزے جاری کرتے ہیں تو ان کی تمام قانونی شرائط پوری کرنی پڑتی ہیں

اس قسم کی سٹوپڈ حرکات سے ہم ملک و ملت کی کیا خدمت کر رہے ہیں خود اس خاتون نے بھی ویکسینیشن کرائی ہوگی باہر پڑھنے کے لیئے،تو پھر پاکستانی معصوم بچوں کو ایسے زہریلے پراپیگنڈے سے معذور بنانے کا ٹارگٹ انہیں کس نے دیا ہے وہ خاتون فرما رہی تھی کہ پ کا ایمان تب ہی مضبوط ہوگا جب آپ اپنے گھر بار چھوڑ کر پہاڑوں کو اپنا مسکن بنا لیں۔اب سمجھ آتی ہے کہ لوگ ویکسین سے اتنا ڈرنے کیوں لگے ہیں اکثر ویکسین جھاڑیوں میں رلتی پائی جاتی ہے ۔بلکہ اس پر کئی مرد و زن قتل بھی ہو چکے ہیں ۔یہ کون ہیں جو پاکستانی بچوں کو معذوری کا تحفہ دے رہے ہیں یقیناً یہ وہی ہیں جن کو نادرا کے غدار افسروں نے پاکستانی شناختی کارڈ بنا کر دئیے ان کو اپنے اندر اس طرح مرج کر لیا گیا کہ اب انکی پہچان ممکن نہیں کبھی وہ جہازوں میں چھپا کر لائے گئے تو کبھی انہیں ریوڑیوں کی طرح پاسپورٹ بانٹے گئے ،

ظاہر ہے یہ عام لوگ نہیں انتہائی اہم عہدوں پر بیٹھے سرکاری لوگ تھے جو باہر بیٹھ کر پاکستان پر قبضے کی جنگ لڑ رہے ہیں ۔لیکن ہمارے ارباب اختیار یہ کیوں بھول رہے ہیں کہ معذوروں کو سڑکوں اور پلوں کی ضرورت نہیں معذوری سے بچنے کا سامان چاہیئے اب تو شائد ہی کوئی گھر ایسا ہو جس میں ایک دھ معذور بچہ موجود نہ ہو اس میں جسمانی معذوری بھی شامل ہے اور ذہنی معذوری بھی ۔وہ جہالت کے دور تھے جب ہر بات کو قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کر لیا جاتا تھا ،آج کے دور میں اسے قسمت کا لکھا نہیں حکمرانوں کی نا اہلی سمجھی جائے گی جنھوں نے اس اہم مسلیء پر ذرہ بھر سنجیدگی نہیں دکھائی!

Mrs Khakwani

Mrs Khakwani

تحریر : مسز جمشید خاکوانی