تحریر : محمد اشفاق راجا چین کی اعلیٰ سیاسی اور عسکری قیادت نے اِس عزم کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان اور چین کی دوستی سدا بہار ہے، اقتصادی راہداری منصوبے پر مل کر کام کریں گے اور پاکستان کی خود مختاری، سلامتی اور ترقی کے لئے بھرپور تعاون کیا جائے گا۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے منگل کو بیجنگ میں چینی وزیراعظم لی کی کیانگ سے ملاقات کی اور دفاع سمیت مختلف شعبوں میں تعاون پر تبادل? خیال کیا۔ اِس موقع پر چینی وزیراعظم نے کہا دونوں ملکوں کے درمیان تاریخی، سیاسی، فوجی اور اقتصادی تعلقات قائم ہیں۔ انہوں نے کہا خطے میں امن و خوشحالی کے لئے چین پاکستان سے تعاون کر رہا ہے۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے کہا کہ پاکستان کی فوج چین پاکستان اقتصادی راہداری کے لئے محفوظ ماحول فراہم کرنے پر تیار ہے، ملاقاتوں کے دوران اِس امر پر اتفاق ظاہر کیا گیا کہ جنوبی ایشیا میں امن و استحکام ضروری ہے، چینی رہنماؤں نے کہا کہ پاکستان کے لئے چیلنجز چین کے لئے چیلنجز ہیں۔
انہوں نے دہشت گردی کے خلاف پاک فوج کی کامیابیوں کو سراہا۔چین اور پاکستان عشروں سے تاریخی، جغرافیائی اور مواصلاتی رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں، چین اور پاکستان نے مل کر سین? سنگ پہ ریشم کا راستہ شاہراہِ ریشم کی شکل میں بنایا اور اب پاک چین اقتصادی راہداری بنا رہے ہیں، جس سے نہ صرف دونوں ملکوں کے درمیان زمینی فاصلے کم ہو جائیں گے بلکہ گوادر بندر گاہ کے ذریعے چینی درآمدات اور برآمدات کے لئے مختصر راستہ فراہم ہو جائے گا۔ گوادر میں عالمی معیار کا جدید ترین ائر پورٹ بھی چین کے تعاون سے بنایا جا رہا ہے، جس کے ذریعے چین اور پاکستان کا فضائی سفر بھی کم ہو گا، گوادر بندرگاہ اِسی سال پوری طرح آپریشنل ہو رہی ہے اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف پہلے ہی اعلان کر چکے ہیں کہ سالِ رواں کے آخیر تک چینی سامان گوادر کی بندرگاہ پر اْترنا شروع ہو جائے گا۔
پاک چین اقتصادی راہداری کا منصوبہ نہ صرف دونوں ملکوں کے لئے مفید ہے، بلکہ چینی قیادت بار بار اعلان کر چکی ہے کہ اِس سے خطے کے دوسرے ممالک بھی فائدہ اْٹھا سکتے ہیں پھر اِس راہداری کو افغانستان کے راستے وسطی ایشیا تک وسیع کیا جا سکتا ہے،افغانستان دو دوسرے اہم ترقیاتی منصوبوں کی گزر گاہ بھی ہے، جن میں سے ایک ”تاپی” (ترکمانستان، افغانستان، پاکستان، انڈیا) گیس پائپ لائن اور دوسرا ”کاسا1000” (تاجکستان، کرغزستان، افغانستان، پاکستان) ہے، ایک کے ذریعے ترکمانستان سے گیس پاکستان آ رہی ہے اور دوسرے کے ذریعے تاجکستان سے 1000میگاواٹ بجلی پاکستان آئے گی۔ 300میگاواٹ بجلی افغانستان کو بھی ملے گی ایسے منصوبوں کے لئے جو طویل پائپ لائن اور ٹرانسمیشن لائن بچھائی جائے گی اس کے لئے ضروری ہے کہ افغانستان اور خطے میں امن ہو۔
Afghanistan
افغانستان کا امن (اور بد امنی) علاقے کو متاثر کرتے ہیں اِس لئے ترقیاتی منصوبوں کے لئے امن بنیادی شرط ہے اور خوشحالی بھی امن کے ساتھ ہی وابستہ ہے، دونوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے، بدامن علاقے خوشحال نہیں ہو سکتے اور خوشحالی ہمیشہ پْرامن خطوں کا رْخ کرتی ہے، اِس لئے چین، روس اور پاکستان کے ساتھ مل کر افغانستان میں بھی امن لانے کے لئے کوشاں ہے۔گوادر سے اقتصادی راہداری کا طویل روٹ درہ خنجراب تک مشکل اور دشوار گزار علاقوں سے گزرے گا، اِن علاقوں میں جگہ جگہ سماج دشمن عناصر نے اپنی کمین گاہیں بنا رکھی ہیں ایسے خطرات موجود ہیں کہ پاک چین اقتصادی راہداری کی تعمیر میں مصروف چینی اور پاکستانی انجینئروں اور ماہرین کو اغوا کر کے تاوان طلب کیا جائے گا۔
یہ خدشہ اِس لئے بھی ہے کہ اِس سے پہلے دوسرے ترقیاتی منصوبوں میں مصروف انجینئروں اور ماہرین کو نہ صرف اغوا کیا گیا، بلکہ اْن میں سے بعض کی جانیں بھی گئیں، انہی خدشات کے پیشِ نظر پاک فوج نے پورے روٹ کی حفاظت کے لئے خصوصی سیکیورٹی فورس بنائی ہے، جس کی تمام تر تفصیلات سے چین کو آگاہ کر دیا گیا ہے اور چین اِن حفاظتی انتظامات سے مطمئن ہے، تاہم پاک چین اقتصادی راہداری کے روٹوں کو متنازع بنا کر پاکستان میں جو مناقشات کھڑے کرنے کی کوشش کی گئی، چینی قیادت کو اِس پر بجا طور پر تشویش رہی ہے اور ماضی قریب میں پاکستان کو بڑا بروقت مشورہ دیا گیا تھا کہ وہ اِس سلسلے میں تنازعات کو ختم کرائے۔ پاکستان کی حکومت نے اِس سلسلے میں بہت سی کوششیں کی ہیں اِس ضمن میں دو آل پارٹیز کانفرنسوں کا اہتمام بھی کیا گیا۔
خیبرپختونخوا کی حکومت کے ساتھ بھی وفاقی حکومت اِن مسائل پر بات چیت کرتی رہی، لیکن اب بھی بعض اختلافی آوازیں اِس سلسلے میں اْٹھتی رہتی ہیں اور ابھی حال ہی میں وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے ایک بیان میں کہا تھا کہ اگر ہمارے مطالبات نہ مانے گئے تو ہم اقتصادی راہداری کے لئے اپنے صوبے میں زمین نہیں دیں گے۔ہم گزارش کریں گے کہ پرویز خٹک کے اعتراضات کا ایک ہی بار جائزہ لے کر اْنہیں مطمئن کر دیا جائے اور ان کے جو جائز مطالبات ہیں وہ مان لئے جائیں۔ تاہم اْنہیں ایک قومی منصوبے کو جس پر نہ صرف پاکستان کی خوشحالی کا انحصار ہے چھوٹے چھوٹے فروعی اختلاف کی نذر کرنے سے گریز کرنا چاہئے اور اِن مفادات سے اوپر اْٹھ کر وسیع تر قومی مفادات کو پیشِ نظر رکھ کر آگے بڑھنا چاہئے۔اس طرح کے مواقع بار بار ہر کسی کے دروازے پر دستک نہیں دیتے اور جب دستک دیتے ہیں تو ان کا مثبت جواب نہ دیا جائے تو یہ کوئی دوسرا دروازہ کھٹکھٹانے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں اِس لئے مواقع کا آگے بڑھ کر قومی جوش وجذبے سے استقبال کرنا چاہئے تاکہ وہ مایوس ہو کر کوئی دوسرا دروازہ تلاش نہ کرنے لگیں۔
Raheel Sharif
جنرل راحیل شریف کو اِس امر کا بخوبی احساس ہے وہ پاکستان کے اندر یا چین میں، جہاں کہیں بھی اْنہیں موقع ملتا ہے، جب بھی چینی قیادت سے ملتے ہیں تو اْسے یہ احساس دِلاتے ہیں کہ پاکستان اْن تمام خطرات سے بخوبی آگاہ ہے جو سیکیورٹی کے حوالے سے پاک چین اقتصادی راہداری کو درپیش ہو سکتے ہیں، اِس لئے اِن خدشات کا کما حقہ ادراک کر کے اِن کی پیش بندی کے لئے خصوصی سیکیورٹی فورس کی تشکیل کی گئی ہے۔ آرمی چیف نے اْن عناصر کو بھی خبردار کر دیا تھا، کہ اپنے گھٹیا مفادات کی خاطر اِس منصوبے کی راہ میں رکاوٹ بننے کی ناکام کوشش نہ کریں وہ اِس امر کا بھی بار بار اظہار کر چکے ہیں کہ اِس منصوبے کے راستے میں کوئی رکاوٹ برداشت نہیں کی جائے گی۔
بھارت نے بھی اِس منصوبے کی راہ میں رکاوٹ بننے کی کوشش کی، بلوچستان سے گرفتار ہونے والے ”را” کے ایجنٹ کلبھوشن یادیو نے دورانِ تفتیش یہ انکشاف کیا تھا کہ اْس کے ذمے یہ کام لگایا گیا تھا کہ وہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کی تعمیر کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرے، ظاہر ہے اِس مقصد کے حصول کے لئے اس نے مقامی ایجنٹ بھی تیار کئے ہوں گے جو اپنے اپنے انداز میں اِس منصوبے کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کرتے رہے ہوں گے، ماضی میں بھی ہمیں ایسے تجربات ہوئے ہیں کہ ہر لحاظ سے قابلِ عمل ترقیاتی منصوبوں کو بھی بھارت کے ایجنٹوں نے متنازع بنایا۔ اِس لئے اس پہلو سے بھی تفتیش کی ضرورت ہے کہ کلبھوشن یادیو نے اپنے دائرہ اثر و رسوخ کو کہاں کہاں تک پھیلایا ہوا تھا۔
بعض حلقے ”حقوق” کی آڑ میں اور بعض دوسرے حلقے ”روٹ” کو متنازعہ بنا کر اِس منصوبے کی راہ میں مزاحم ہونے کی کوشش کرتے رہے۔ کئی لوگوں نے اِس منصوبے کو لاہور کی اورنج لائن ٹرین سے جوڑنے کی کوشش کی اور کہا کہ پاک چین اقتصادی راہداری کے فنڈز اِس منصوبے پر خرچ کئے جا رہے ہیں، حالانکہ آج ہی بتایا گیا ہے چین نے اورنج لائن ٹرین کے لئے33ارب روپے کے فنڈز پاکستان کے حوالے کر دیئے ہیں۔ مقامِ اطمینان ہے کہ چینی عسکری اور سیاسی قیادت اس منصوبے کے بارے میں یکسو ہے اور پاکستان میں بھی سیاسی اور عسکری قیادت کے درمیان اِس سلسلے میں کوئی اختلافات نہیں، اِس لئے امید ہے کہ یہ منصوبہ بروقت مکمل ہو گا اور پاکستان اور چین کے ساتھ ساتھ خطے کی خوشحالی کا بھی باعث بنے گا۔