تحریر: ممتاز اعوان پاکستان میں تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے دھرنوں کی وجہ سے چین کے صدر کو دورہ پاکستان ملتوی کرنا پڑا، پاکستان کے مشیر خارجہ سرتاج عزیزنے چینی صدر سے ملاقات کی جس میں چینی صدرڑی جن پنگ نے یقین دہانی کرائی کہ وہ جلد پاکستان کا دورہ کریں گے۔
چینی صدر کے دورے کے دوران 30 ارب ڈالرز سے زائد کی سرمایہ کاری کے معاہدوں پر دستخط ہونا تھا جس سے پاکستان کی معیشت میں زندگی کی لہر دوڑ جاتی۔ چینی صدر کا دورہ ملتوی ہونے سے توانائی اور انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری کے درجنوں معاہدے بھی التواء میں پڑ گئے ہیں۔ جن معاہدوں میں دستخط ہونا تھے ان میں پورٹ قاسم پر کوئلے سے چلنے والے 2 بجلی گھروں کی تعمیر اور گڈانی کا انفراسٹرکچر بہتر بنانے کا معاہدہ بھی ہونا تھا۔ سندھ میں توانائی اور بہاولپور میں سولر پارک کے منصوبوں کو حتمی شکل دی جانی تھی۔ چین نے پاکستان میں ایٹمی توانائی کے مزید منصوبوں میں بھی دلچسپی ظاہر کی تھی۔
پاک چین اکنامک کوریڈور اور کراچی، گوادر، پشاور اور ملتان میں تجارتی شاہراہ کی تعمیر بھی ایجنڈے میں شامل تھی۔ لاہور میں لائٹ ریل اور ریلوے کا نظام بجلی پر منتقل کرنے کا منصوبہ بھی ہونا تھا جبکہ پاکستان اور چین کے مرکزی بینکوں میں کرنسی کو قابل قبول بنانے کا معاہدہ بھی متوقع تھا۔چینی صدرکا دورہ پاکستان ملتوی ہونے پر سابق صدر آصف زرداری، وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف، امیر جماعت اسلامی سراج الحق اور وفاقی وزیراحسن اقبال نے افسوس کا اظہار کیا تھا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے کہاتھا کہ چینی صدرکا دورہ ملتوی ہونا عمران خان اورطاہرالقادری کا قوم سے انتقام ہے۔ چینی صدر کے دورے سے اربوں کی سرمایہ کاری اور روزگار کے مواقع پیدا ہونے تھے۔ دھرنوں نے پاکستان اورچینی حکومت کی ایک سالہ کوششوں پرپانی پھیردیا۔اب چینی صدر بھارت پہنچ چکے ہیں۔بھارت اور چین نے 12 معاہدوں پر دستخط کئے ہیں جن میں سے ایک معاہدے کے تحت چین اگلے پانچ سال میں بھارت میں بنیادی ڈھانچے کی تعمیر پر 20 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا۔ چینی صدر ڑی جن پنگ اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے ان معاہدوں پر دستخط کئے۔ دونوں ممالک نے سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی میں تعاون کے معاملے پر مذاکرات شروع کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ اس طرح سے چین بھی ان تازہ ترین ممالک میں شامل ہو گیا ہے جو بھارت کو سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی فراہم کرنا چاہتے ہیں۔
بھارت کا چین سے ایٹمی ری ایکٹر حاصل کرنا اگرچہ کئی برس دور ہے تاہم چینی صدر ڑی جن پنگ کا اس حوالے سے مختلف آپشنز پر بات کرنا اس بات کا غماز ہے کہ چین اب امریکہ، فرانس، روس اور دوسرے ممالک سے مقابلہ کرنے والا ملک بن جائے گا۔ دونوں رہنمائوں کے درمیان مذاکرات میں سرحدی تنازعہ چھایا رہا۔ نریندر مودی نے کہا کہ انہوں نے سرحد کے ساتھ ہونے والے مسلسل واقعات پر سنگین تشویش ظاہر کی ہے۔ مودی نے سرحدی تنازعہ جلد حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ چینی صدر نے کہا کہ انہوں نے سرحدی تنازعہ طے کرنے کا عزم کر رکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں باہمی اختلافات کا خاتمہ کرینگے۔ چینی صدر ڑی جن پنگ کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے کہا کہ ترقی کے لئے سرحد پر امن بہت اہم ہے۔ چین بھارت کا اہم اقتصادی شراکت دار ہے لیکن دونوں ملک خطے میں اثر و رسوخ اور سرحد پر تنازعے میں الجھے رہتے ہیں۔ سرمایہ کاری کے منصوبے میں چین بھارت کے پرانے ریلوے نظام کو تیز رفتار ٹرین سسٹم کے ساتھ جدید اور بہتر بنانے میں مدد کرے گا۔
Narendra Modi,Xi Jinping
اس کے علاوہ چین بنیادی ڈھانچے کی تعمیر میں بھی سرمایہ کاری کرے گا۔ نریندر مودی نے چینی صدر کے ساتھ سرحد کے معاملات پر بھی بات کی۔ بھارتی میڈیا میں اس طرح کی خبریں گردِش کر رہی ہیں کہ چینی فوجی دستے لداخ کے متنازعہ علاقے میں لائن آف کنٹرول کے اس پار بھارتی علاقے میں عارضی سڑک بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بھارت اور چین کے درمیان سرحدی تنازع بہت پرانا ہے جب 1941 میں بھارت پر اپنی حکمرانی کے دوران برطانیہ نے تبت کے ساتھ معاہدہ کیا تھا جس کے تحت میک موہن لائن دونوں ملکوں کے درمیان عملی طور پر سرحد قرار دی گئی تھی لیکن چین اسے تسلیم نہیں کرتا۔ چینی صدر نے اپنے دورے کا آغاز نریندر مودی کی ریاست گجرات سے کیا تھا۔ اس کے بعد وہ دہلی آئے۔ مودی نے کہا کہ چین کے ساتھ اچھے تعلقات ہماری ترجیح میں شامل ہیں۔ وہ دونوں ممالک کی ترقی کی منصوبوں کو اہم سمجھتے ہیں اور ان کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ نریندر مودی نے چینی صدر سے درخواست کی ہے کہ وہ بھارتی کمپنیوں کے چین میں کاروبار کرنے کو مزید آسان بنائیں۔ چینی کمپنیوں کو بھارت میں بنیادی ڈھانچے اور صنعت کے شعبے میں سرمایہ کاری کے لئے مدعو کیا ہے۔ دونوں ممالک کو اپنے سرحدی تنازعے کو جلد سے جلد حل کرنا چاہئے۔ سرحد پر امن کے لئے لائن آف ایکچوئل کنٹرول کے تعین کا کام کئی سال سے رکا ہوا ہے، اسے جلد سے جلد دوبارہ شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ چینی صدر نے اعلان کیا کہ ان کا ملک بھارت میں چینی زبان کے ڈیڑھ ہزار اساتذہ کو تربیت کرے گا، پانچ سو چینی اساتذہ کو بھارت بھیجے گا۔ چین اور بھارت میں ہونے والے معاہدوں میں ریاستِ گجرات میں صنعتی پارک قائم کرنے، گجرات کے سب سے بڑے شہر احمد آباد اور چین کے صوبہ گوانگ ڈونگ کے دارالحکومت گوانگ ڑو کو ‘جڑواں شہر قرار دیا جانا شامل ہے۔ نئی دہلی میں راشٹرپتی بھون پہنچنے پر چینی صدر کے اعزاز میں گارڈ آف آنر دیا گیا۔ چینی صدر نے گارڈ آف آنر کا معائنہ کرنے کے بعد کہاکہ دونوں ممالک کو مل جل کر کام کرنا چاہئے، دوستانہ تعلقات کو فروغ دینا چاہئے۔ چین اور بھارت کے ترقیاتی مقاصد اور حکمت عملی مشترکہ ہیں، ان کی معیشت میں ترقی کی زبردست صلاحیت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بھارت نے ایک بار پھر چین پر سرحدی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا۔
سرحدی تنازعہ پر بارہ گھنٹوں تک جاری رہنے والی دوسری فلیگ میٹنگ بھی بے نتیجہ رہی ہے جس کے بعد ایک اور فلیگ میٹنگ کا امکان ہے۔ نریندرمودی نے گجرات میں ون آن ون ملاقات میں چینی صدر کے سامنے لداخ میں مداخلت کا معاملہ بھی اٹھایا۔ چین کے صدر سے ملاقات کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک بریفنگ میں بتایا کہ میں نے ملاقات میں لداخ کی متنازعہ سرحد پر چینی فوجیوں کی مداخلت کے واقعات کا معاملہ اٹھاتے ہوئے گہری تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ سرحد پر امن و مفاہمت ہی اچھے تعلقات کی بنیاد ہے۔ صدر ڑی نے اتفاق کیا کہ سرحدی تنازعہ جلد حل ہونا چاہئے۔چین متنازعہ سرحدی علاقے میں امن و مفاہمت قائم کرنے کیلئے بھارت کے ساتھ کام کرنے کیلئے پرعزم ہے۔ نئی دہلی میں بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان نے بتایا کہ صدر ڑی اور نریندر مودی کی ملاقات میںلداخ کی سرحد پر نئے تنازعہ پر بھی بات چیت کی گئی۔ بھارتی وزیراعظم سے ملاقات کے بعد اپنے خطاب میں چینی صدر نے کہا کہ ان کا ملک سلامتی کونسل سمیت اقوام متحدہ میں بھارت کے وسیع تر کردار کی خواہش کی حمایت کرتا ہے۔ بھارت اور چین کی معیشتوں میں ترقی کی زبردست صلاحیت ہے۔ دونوں ممالک کو دوستانہ تعلقات کو فروغ دینا چاہئے۔ چینی صدر نے آئندہ 5 سال میں جنوبی ایشیا کے ممالک کے ساتھ سالانہ باہمی تجارت 150 بلین ڈالر تک لے جانے کا ہدف مقرر کر رکھا ہے۔ایک ایسے موقع پر جب چینی صدر بھارت کا دورہ کر رہے ہیں پاکستان کی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی ناصر خان خٹک نے کہا کہ آج چین اور بھارت میں دوستی کا نیا دور شروع ہو رہا ہے۔پاکستان دنیا سے الگ تھلگ ہو کر رہ گیا ہے۔ پاکستان بہت بے قدر ہو کر رہ گیا ہے مگر پارلیمنٹ کے باہر قادری تماشا لگا ہوا ہے، ملک کو دہشت گرد سمجھا جا رہا ہے۔ یہ پارلیمنٹ چینی صدر کے دورہ کیلئے ایک قرارداد منظور کرے اور یہ قرارداد چینی صدر کو بھجوائی جائے کہ پاکستان چین کا بااعتماد دوست ہے، یہ ملک اور پاکستان کی پارلیمنٹ ان کے دور ہ پاکستان کی نئی تاریخوں کی منتظر ہے۔