تحریر: مہر بشارت صدیقی چین کے صدر دو روزہ دورے پر پاکستان پہنچ گئے، صدر، وزیر اعظم نواز شریف، وفاقی وزراء، وزیراعلیٰ پنجاب نے پرتپاک استقبال کیا۔ ان کا طیارہ پاکستان کی فضائی حدود میں داخل ہوا تو پاک فضائیہ کے 8 جے ایف 17 تھنڈر طیاروں نے ان کا فضا میں استقبال کیا اور انہیں اپنے حصار میں لے لیا۔
چینی صدر کا طیارہ نور خان ائیربیس چکلالہ پر لینڈ کیا، معزز مہمان کے استقبال کرنے کے لیے صدر ممنون حسین ، وزیر اعظم نواز شریف، وزیر اعلیٰ پنجاب اور متعدد ارکان پارلیمنٹ بھی موجود تھے۔ چینی صدر کے استقبال کیلئے پاکستان میں چین کے سفیر سن وی ڈونگ بھی موجود تھے۔ چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی ، تینوں مسلح افواج کے سربراہان بھی معزز مہمان کے استقبال کے لیے موجود تھے۔ چینی صدر خاتون اول کے ہمراہ طیارے سے اترے تو انہیں اکیس توپوں کی سلامی دی گئی ، روایتی ثقافتی ملبوسات نے بچوں نے مہمانوں کو پھول پیش کیے۔ پاک فوج کے میوزک بینڈ نے دونوں ملکوں کے ترانوں کی دھنیں بجائیں۔ کمانڈر کے کاشن پر پاکستان اور چین کے جھنڈے فضا میں بلند کیے گئے جبکہ چینی صدر نے گارڈ آف آنر کا معائنہ کیا ، اس موقع پر مختلف ترانوں کی دھنیں بھی بجائی گئیں۔ رنگ برنگے لباس میں ملبوس بچوں نے پاک چین جھنڈیاں لہرا کر چینی صدر کا پرتپاک استقبال کیا جس پر چینی صدر شی چِن پنک نے ہاتھ ہلا کر مسکراتے ہوئے ان کو جواب دیا جبکہ کئی بچوں سے انہوں نے ہاتھ بھی ملایا۔ صدر اور وزیر اعظم بھی ان کے ہمراہ تھے جس کے بعد جے ایف 17 تھنڈر طیارے فضا میں بلند ہوئے اور اس موقع پر فلائی پاسٹ کا مظاہرہ کیا۔
چینی صدر نے چئیرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف اور تینوں مسلح افواج کے سربراہوں اور ارکان پارلیمنٹ سے ملاقات کی۔ صدر ممنون حسین اور وزیر اعظم نے چینی صدر کے ہمراہ آنے والے وفد کے ارکان سے ملاقات کی۔ چینی صدر کی آمد کے موقع پر ثقافتی رقص بھی پیش کیا گیا جس کے بعد صدر شی چِن پِنگ سخت سیکورٹی حصار میں ائیرپورٹ سے روانہ ہوگئے۔ پاکستان اور چین کے درمیان آزاد انہ تجارت کے معاہدے (ایف ٹی اے) پر دستخطوں کے بعد دوطرفہ تجارتی حجم میں اضافہ کے مثبت نتائج برآمد ہوئے ہیں اور دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی حجم 2006ء میں6 ارب ڈالر سے بڑھ کر 2014ء میں16 ارب ڈالر پر پہنچ گیا ہے۔ پاک چین آزاد انہ تجارت کا معاہدہ 2006ء میں طے پایا اور اس کے 2007ء میں نافذ العمل ہونے کے بعد دونوں ممالک کی کاروباری برادری، صارفین کو زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم ہوئے۔ پاکستان پہلا ترقی پذیر ملک ہے جس نے آزمودہ دوست ملک سے اپنی معیشت کو مضبوط کرنے کیلئے آزادانہ تجارت کے معاہدے پر دستخط کئے۔
Pakistan and China
یہ معاہدہ جامع طور پر سامان کی تجارت اور خدمات کے علاوہ سرمایہ کاری کا احاطہ کرتا ہے۔ حالیہ تجارت کا توازن چین کے مفاد میں ہے تاہم برآمدات میں اضافے اور درآمدات میں کمی کیلئے کوششیں کی جارہی ہیں۔ دونوں ممالک کے مابین پاک۔چین آزادانہ تجارت کے معاہدے کے دوسرے مرحلہ کے سلسلہ میں مذاکرات کا عمل جاری ہے اور اس ضمن میں چار اجلاس پہلے ہی ہوچکے ہیں۔ اس مرحلہ کے تحت معاہدہ دوطرفہ معاملات پر محیط نہیں ہوگا بلکہ چین کی نسبت پاکستان کو زیادہ مراعات حاصل ہوں گی۔ فریقین پاکستان کیلئے زیادہ مراعات پر غور کر رہے ہیں تاکہ منڈیوں میں پڑی چین کی سستی مصنوعات کے اثرات سے ہونے والے نقصانات کا ازالہ ہوسکے۔ مذاکرات کے گزشتہ دور میں پاکستان نے 50 فیصد مصنوعات پر ڈیوٹی زیرو کرنے کی تجویز پیش کی جو 90 فیصد سے بھی کم نہیں جس پر ابتدائی آزادانہ تجارت کے معاہدے میں اتفاق کیا گیا تھا جبکہ چین نے فوری طور پر 70 فیصد مصنوعات کا ٹیرف زیرو کرنے کی اور باقی ماندہ 20 فیصد مصنوعات پر ٹیرف مرحلہ وار آئندہ پانچ سال کے دوران کم کرنے کی پیشکش کی تھی۔
معاہدے کے مطابق پاکستان اور چین نے اپنی اپنی سرزمین پر ایک دوسرے کے بنکوں کی شاخیں قائم کرنے پر بھی اتفاق کیا تھا۔ چین میں پاکستانی بنکوں کے قیام سے توقع ہے کہ ان کے ذریعے کافی حد تک رقوم منتقل ہوں گی جس سے نہ صرف ملک کے غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائربلکہ ملکی معیشت اورمجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی) کی شرح میں اضافہ میں بھی مدد ملے گی۔ چائنا۔پاکستان اقتصادی راہداری کیلئے چینی سرمایہ کاری بھی پاکستانی بنکوں کے ذریعے آئے گی۔ ملک کے کرنٹ اکائونٹ خسارہ میں بھی خاطر خواہ کمی آئے گی جو آزاد انہ تجارت کے معاہدے کی بہت بڑی کامیابی ہوگی۔ پاکستانی بنکوں کے چین میں ایک مرتبہ کھلنے سے 10 ارب ڈالر کے سرمائے کا لین دین ہوگا جس ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں بہتری آئے گی۔ پاکستان نے پہلے ہی 11 شعبوں میں چین کو مارکیٹ رسائی مہیا کر رکھی ہے۔ مجموعی طور پر 160 سب سیکٹرز میں سے پاکستان نے 107 سب سیکٹرز میں چین کو مارکیٹ رسائی دینے کا عزم کررکھا ہے۔
Nawaz Sharif and Xi Jinping
چین نے اپنے 11 شعبوں اور 133 ذیلی شعبوں میں رسائی دے رکھی ہے۔ چین نے پاکستان عالمی ادارہ تجارت سے بڑھ کر اپنی منڈیوں تک رسائی دی جو کسی بھی ملک کو دی گئی پیشکش سے زیادہ ہے۔ چین نے پاکستانی سرمایہ کاروں کو چین میں مختلف شعبوں میں مکمل ملکیتی منصوبے شروع کرنے کی اجازت دے رکھی ہے جن میں ترسیلات کے شعبے، کمیشن ایجنٹ سروسز، ہول سیل اور ریٹیل سروسز، کمپیوٹر اور متعلقہ سروسز کے شعبے شامل ہیں۔حکومت توانائی بحران پر قابو پانے کیلئے دوست ممالک بالخصوص چین کے غیر ملکی تعاون سمیت تمام وسائل بروئے کار لا رہی ہے۔ بجلی کی طلب اور مستقبل کی ملکی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے چین کی پون، پن بجلی، شمسی توانائی اور کوئلے سے بجلی پیدا کرنے میں چین کی سرمایہ کاری بہت اہمیت رکھتی ہے، موجودہ طور پر چین مختلف توانائی کے پیداواری منصوبوں کیلئے 14 ارب ڈالر کی مالی معاونت فراہم کر رہا ہے جو پہلے مرحلہ میں 2017-18ء تک 10 ہزار 400 میگاواٹ بجلی کی پیداوار شروع کر دیں گے۔
چین کی حکومت سے منظور شدہ منصوبوں میں پورٹ قاسم، کوئلے سے چلنے والے 1320 میگاواٹ بجلی، سکھی کناری کا 870 میگاواٹ کا پن بجلی کا منصوبہ، ساہیوال میں کوئلے سے چلنے والا 1320 میگاواٹ کا منصوبہ، اینگرو تھرکول بلاک 2 کی کان کنی سے 660 میگاواٹ بجلی کی پیداوار کا منصوبہ، مظفرگڑھ کوئلے سے بجلی کا 1320 میگاواٹ کا منصوبہ، گوادر میں کوئلے سے بجلی کا 300 میگاواٹ کا منصوبہ، قائداعظم سولر پارک چولستان میں ایک ہزار میگاواٹ شمسی توانائی کا منصوبہ، یونائیٹڈ انرمی کراچی کا پون بجلی کا 100 میگاواٹ کا منصوبہ، دادو پون بجلی کراچی کا 50 میگاواٹ کا منصوبہ، سچل پون بجلی سے 50 میگاواٹ بجلی، سونیک ونڈ پاور کا 50 میگاواٹ، رحیم یار خان کوئلے سے 1320 میگاواٹ بجلی کا منصوبہ، ایس ایس آر ایل تھر کوئلے سے 1320 میگاواٹ بجلی اور کاروٹ پن بجلی کا 720 میگاواٹ توانائی کا منصوبہ شامل ہیں۔ علاوہ ازیں مجموعی 6445 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے دیگر چند منصوبے دوسرے مرحلے میں تیز رفتاری کی بنیاد پر مکمل ہوں گے۔ 10 ہزار 400 میگاواٹ بجلی کے ان منصوبوں کیلئے چین سے کوئی قرض نہیں لیا جائے گا۔ چینی کمپنیاں توانائی کے شعبہ میں 14 ارب ڈالر کی براہ راست سرمایہ کاری کر رہی ہیں۔ چینی بینک توانائی کے ان منصوبوں پر کام کرنے والی کمپنیوں کو قرضے فراہم کریں گے اور پاکستان صرف معاہدوں کے تحف کمپنیوں کو 20-25 برس کیلئے ٹیرف ادا کرے گا۔
کوئلہ ملک میں توانائی کی پیداوار کے اعلیٰ ترین ذرائع میں سے ایک بنتا جا رہا ہے، کوئلے سے 3440 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے 6 منصوبوں کیلئے اظہار دلچسپی جاری کر دیئے گئے ہیں جبکہ 4740 میگاواٹ کے دیگر 5 منصوبوں کیلئے اظہار دلچسپی کے اجراء پر کام ہو رہا ہے جو پرائیویٹ پاور انفراسٹرکچر بورڈ کے ذریعے جاری کئے جا رہے ہیں۔ کوئلے، پن، پون، شمسی اور نیوکلیئر وسائل سے بجلی پیدا کرنے کے علاوہ حکومت ریفائنز مائع قدرتی گیس سے بجلی پیدا کرنے کیلئے پرامید ہے جو سستی بجلی پیدا کرنے کا اہم ذریعہ ہے۔
چین نے کراچی میں بڑے نیوکلیئر پاور پراجیکٹ کی تعمیر کیلئے معاونت فراہم کر رہا ہے اور وزیراعظم محمد نواز شریف پہلے ہی 9.59 بلین ڈالر کے منصوبے کا سنگ بنیاد رکھ چکے ہیں۔ طویل المدتی توانائی کے منصوبوں کے ذریعے توقع ہے کہ پاکستان کو 2050ء تک نیوکلیئر پلانٹس کے ذریعے 40 ہزار میگاواٹ سے زائد بجلی کی پیداوار حاصل ہوگی۔ اسی طرح پنجاب حکومت نے چین کی معروف کمپنی کے ساتھ مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کئے ہیں جس کے تحت چینی کمپنی چائنہ پاور انٹرنیشنل ہولڈنگز (سی پی آئی ایچ) 2400 میگاواٹ کوئلے سے بجلی کے 4 پلانٹس قائم کرے گی۔ توانائی کے شعبہ میں پیداواری بھاری اضافہ سے ملک توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے قابل ہوگا۔ یہ منصوبے حکومت کے انرجی روڈ میپ کا حصہ ہیں جس کا مقصد عوام الناس کو سستی بجلی کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے۔