نئی دہلی (جیوڈیسک) بھارت نے چینی صدر کے دورے کے دوران کشمیر اور ارونا چل پردیش کو متنازعہ علاقے تسلیم کر لیا ہے، معاہدے کے دوران نقشہ تقسیم کرنے پر اپوزیشن برہم،حکومت کے خلاف شدید احتجاج، وضاحت طلب کر لی، نریندر مودی سے معافی مانگنے کا مطالبہ۔ تفصیلات کے مطابق بھارت میں حزب اختلاف کی جماعت کانگریس نے چینی صدر کے دورے کے دوران تقسیم کیے گئے ایک مبینہ نقشے میں اروناچل پردیش اور جموں کشمیر کو متنازع علاقے دکھانے پر حکومت سے احتجاج کیا ہے۔
یہ نقشہ مبینہ طور پر ریاست گجرات کی حکومت نے گزشتہ ہفتے چین کے صدر شی جی پنگ اور وزیر اعظم مودی کی موجودگی میں احمد آباد میں ایک معاہدے پر دستخط کے وقت تقسیم کیا تھا۔واضح رہے کہ چین کے صدر شی جی پنگ کے بھارت کے دورے کے دوران بھی چینی فوجی بھارت کی سرحد پر متنازع علاقے لداخ کی سرحد میں داخل ہوئی تھی۔ابھی تک حکومت کی جانب سے اس مبینہ نقشے کے بارے میں کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔
کانگریس کے جنرل سیکرٹری اجے ماکن نے ٹوئٹر پر ایک بیان میں کہا ہے کہ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا معاہدے میں بھی یہی نقشہ ہے جس میں اروناچل پردیش کو متنازع علاقہ دکھایا گیا ہے۔انھوں نے مزید کہا کہ نریندر مودی نے اروناچل پردیش میں اپنی انتخابی مہم کے دوران وعدہ کیا تھا کہ وہ بھارت کو جھکنے نہیں دیں گے، بھارت کی ایک انچ زمین بھی نہیں دیں گے۔
اس نقشے میں اروناچل پردیش کو متنازع علاقہ دکھایا گیا ہے اور وزیر اعظم کو اس خوفناک غلطی کے لیے معافی مانگنی چاہیے۔جے ماکن نے ٹوئٹر پر اس نقشے کی تصویر ٹویٹ کی ہے اور اس کے ساتھ لکھا کہ کیا مودی حکومت نے اروناچل پردیش چین کو دے دیا ہے؟جبکہ کانگریس کے ترجمان ابھیشیک منو سنگھوی نے کہا کہ اس معاملے پر وزیراعظم کو باقاعدہ بیان دینا چاہیے اور معافی مانگنی چاہیے۔