تحریر : سید توقیر زیدی چینی صدر شی چن پنگ نے امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا ہے، جس میں دونوں ممالک میں تعلقات کو فروغ دینے پر بات چیت ہوئی، چینی صدر نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کا درست راستہ تعاون ہے،انہوں نے جلد ملاقات پر بھی اتفاق کیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ چین امریکہ تعلقات کے نئے دور کے آغاز کے لئے تیار ہیں، ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دور ان چینی مصنوعات پر 45 فیصد ٹیرف لگانے کی دھمکی دی تھی۔ اِس تناظر میں چینی صدر نے تعاون کے راستے کی نشاندہی کر کے امریکہ کے نئے صدر کو واضح پیغام دے دیا ہے، اقتصادی اور معاشی ترقی کے لئے مضبوط تعاون پر زور دیا گیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ اور روسی صدر ولادی میر پیوٹن کے درمیان بھی فون پر بات چیت ہوئی، جس میں اِس بات پر اتفاق کیا گیا کہ باہمی احترام اور عدم مداخلت کے اصول پر روس،امریکہ سے مذاکرات کے لئے تیار ہے، دونوں رہنماؤں نے دہشت گردی اور انتہا پسندی سے مل کر لڑنے پر بھی اتفاق کیا، ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ وہ روس کے ساتھ مضبوط اور پائیدار تعلقات چاہتے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ اپنی پوری انتخابی مہم کے دور ان جن خیالات کا اظہار کرتے رہے اْن کی وجہ سے دْنیا بھر میں اور خود امریکہ کے اندر اْن (ڈونلڈ ٹرمپ) کے بارے میں یہ رائے قائم ہو گئی کہ وہ انتہا پسندانہ خیالات رکھتے ہیں، جو امریکہ کے دیرینہ دوستوں کو ناراض کر دیں گے اور اس طرح امریکہ کے معاشی مفادات کو بھی زک پہنچے گی، امریکہ میں امیگریشن کے معاملے پر بھی اْن کے خیالات کو زیادہ پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھا گیا، وہ میکسیکو اور امریکہ کی سرحد پر دیوار تعمیر کرنے کی بات بھی کرتے رہے اور اب بھی کسی نہ کسی انداز میں اس دیوار کے ساتھ اظہارِ محبت کر رہے ہیں امریکہ میں کون آتا ہے اور کون نہیں آتا، یہ امریکہ اور امریکیوں کا اپنا مسئلہ ہے وہ کن لوگوں کو اپنے مْلک میں داخلے کی اجازت دیتے ہیں اور وہ کون خوش قسمت ہوتے ہیں،جو ڈونلڈ کے عہدِ صدارت میں امریکہ میں رہنے کے لئے اِذن باریابی پاتے ہیں یہ سب کچھ تو اس وقت سامنے آئے گا، جب 20جنوری 2017ء کو ڈونلڈ ٹرمپ صدارتی منصب سنبھال لیں گے اور اْن کی پالیسیوں پر عملدرآمد شروع ہوگا۔ انتخابی تقریروں میں وہ جو کچھ بھی کہتے رہے ہوں دیکھنا یہ ہو گا کہ اب اس پر عملدرآمد کس طرح ہوتا ہے۔
یہ بات تو واضح ہو گئی ہے کہ انہوں نے بعض ناپسندیدہ اور غیر مقبول خیالات کا اظہار کر کے امریکیوں کی توجہ ضرور حاصل کی اور اِسی توجہ کی وجہ سے اْنہیں ووٹ بھی ملے اور وہ منتخب بھی ہوگئے،اِس لئے ضروری نہیں کہ اب وہ سارے انتخابی وعدوں پر عملدرآمدبھی کریں،اْنہیں دْنیا کے معروضی حالات اور اپنے مْلک کے مفاد ات کو بھی بہرحال پیشِ نظر رکھنا ہو گا۔ چینی مصنوعات اگر امریکہ میں جا رہی ہیں اور وہاں فروخت بھی ہو رہی ہیں تو ایسا اِس لئے ہے کہ اس سے امریکیوں کی ضرورتیں پوری ہوتی ہیں۔
امریکی شہری چین کی محبت میں یہ اشیا نہیں خرید رہے اور نہ اْن کا جذبہ محرّ کہ چینی اقتصادیات کی سرپرستی ہے۔ یہ اشیا اِس لئے خریدی جا رہی ہیں کہ یہ امریکیوں کی ضرورت پوری کر رہی ہیں۔اگر انہیں ان اشیاء کی ضرورت نہ ہو گی تو وہ خریداری بند کر دیں گے اور اِس امر کا لحاظ نہیں رکھیں گے کہ یہ کس مْلک سے آ رہی ہیں۔چین نے عالمی آویزشوں سے جان چھڑا کر اپنی اقتصادیات پر توجہ دی ہے اور اِسی کا نتیجہ ہے کہ اس کے خزانے میں زرمبادلہ کے انبار لگے ہیں اور امریکہ جیسی سپر طاقت اس کی ٹریلین ڈالر کی مقروض ہے، اِس لئے تجارت کو محدود کرنے کا بھی فیصلہ ہو گا تو تمام پہلوؤں کو پیش نظر رکھ کر ہی ہو گا۔چینی قیادت حالات کی نزاکت کے مطابق مدبرانہ فیصلے کرنے کی شہرت رکھتی ہے،اِس لئے توقع کرنی چاہئے کہ وہ امریکہ کے نئے صدر کے ساتھ اپنے تعلقات کا ایک بہتر دور شروع کرے گی اور خود امریکی صدر بھی اِس پہلو کو مدِ نظر رکھیں گے۔
Vladimir Putin
جہاں تک روس کا تعلق ہے دونوں مْلک سرد جنگ کا ایک طویل عرصہ گزار چکے ہیں اس دوران کیوبا کا بحران بھی پیش آ گیا تھا، جب روس نے امریکی سرحد پر میزائل نصب کر دیئے تھے جو امریکی دھمکی پر ہٹانے پڑ گئے تھے،لیکن یہ سب تاریخ ہے اِسی کیوبا کے ساتھ جو ہمیشہ روس کا حاشیہ بردار رہا اب امریکہ دوبارہ کاروبار شروع کر چکا ہے دونوں ممالک میں طویل عرصے کے بعد سفارتی تعلقات بھی قائم ہو چکے ہیں۔ ایک زمانے میں جن کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا، اب امریکی کمپنیوں کے مسافروں سے بھرے ہوئے جہاز ہوانا کے ہوائی اڈے پر اْتر رہے ہیں۔ صدر اوباما کیوبا کا دورہ کر چکے ہیں۔ یہ تمام تبدیلیاں ثابت کرتی ہیں کہ قوموں کے تعلقات ہمیشہ یکساں نہیں رہتے ان میں اْتار چڑھاؤ کی کیفیت رہتی ہے۔
انتخابی مہم کے دوران تو ٹرمپ پر یہ الزام بھی لگتا رہا ہے کہ انہیں روس کی درپردہ حمایت حاصل ہے۔اگر ایسا تھا بھی تو اب ٹرمپ اپنے اِن تعلقات کو امریکہ کی بہتری کے لئے استعمال کر سکتے ہیں۔ روسی صدر پیوٹن نے اس کا راستہ بھی کھلا رکھا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ عدم مداخلت کے اصول پر مذاکرات ہو سکتے ہیں امریکی اور روسی پالیسیاں دْنیا کے کئی خطوں میں باہم متصادم ہیں ، خاص طور پر مشرقِ وسطیٰ میں امریکہ صدر بشار الاسد کے خلاف شامی باغیوں کی حمایت کرتا ہے اور علی الاعلان اْن کی حکومت کا تختہ اْلٹنے کی بات کرتا رہا ہے، جس کے جواب میں روس کھل کر بشارالاسد کے ساتھ کھڑا ہو گیا اور اس کی فضائیہ نے اس جنگی تھیٹر میں داخل ہو کر باغیوں کے ٹھکانوں پر بمباری کی، اسی طرح دونوں ممالک میں تصادم کے کچھ اور خطے بھی ہیں جہاں امریکہ اور روس ایک دوسرے کے خلاف پالیسیاں اپنائے ہوئے ہیں اگر دونوں بڑی طاقتیں باہمی مذاکرات کے ذریعے تنازعات طے کرنے پر اتفاق کر لیں تو اس سے دْنیا کے امن کو فائدہ پہنچ سکتا ہے،مشرقِ وسطیٰ میں لاکھوں لوگ چین کی نیند سو سکتے ہیں اور جو اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے، وہ بھی واپس جا سکتے ہیں تاہم یہ اسی صورت ممکن ہو گا، جب امریکہ اور روس اپنی اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کریں گے۔
افغانستان بھی ایک ایسا خطہ ہے،جہاں امریکی افواج موجود ہیں اور صدر اوباما اپنے آٹھ سالہ دور میں اس مسئلے کا حل نہیں نکال سکے، اب افغانستان کے مجاہد کمانڈر گلبدین حکمت یار نے ڈونلڈ ٹرمپ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ امریکی افواج افغانستان سے واپس بْلا لیں۔ نئے امریکی صدر کو اِس معاملے پر بھی سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے عین ممکن ہے ان کے اِس اقدام سے افغانستان میں امن قائم ہو جائے۔ ٹرمپ اگر وہ کام کر دیں جو اوباما نہ کر سکے تو محض اسی ایک کام کی وجہ سے وہ امریکی تاریخ کے کامیاب صدور میں شمار ہو سکیں گے۔