نئی دلی (جیوڈیسک) بھارت میں عام انتخابات کے دوسرے مرحلے کے تحت آج اٹھارہ اپریل کو ہونے والی پولنگ میں تقریباً 1,600 امیدواروں کی سیاسی قسمت کا فیصلہ ہو رہا ہے۔ ان میں 23 فیصد مجرمانہ پس منظر والے اور 27 فیصد کروڑ پتی ہیں۔
دوسرے مرحلے کی پولنگ میں گیارہ ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام ایک علاقہ پڈوچیری کی مجموعی طورپر 95 سیٹوں کے لیے ووٹ ڈالے جارہے ہیں۔ 1596 امیدوار میدان میں ہیں اور تقریباً 16 کروڑ ووٹر ان کی قسمت کا فیصلہ کریں گے۔ پولنگ کے لیے ایک لاکھ اکیاسی ہزار سے زائد مراکز بنائے گئے ہیں۔پولنگ کے لیے سکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔
مقررہ پروگرام کے تحت دوسرے مرحلے میں 13 ریاستوں کی 97 لوک سبھا سیٹوں پر پولنگ ہونا تھی لیکن تامل ناڈو کے علاقے ویلور میں انکم ٹیکس چھاپے میں گیارہ کروڑ روپے سے زیادہ نقدی برآمد ہونے پر پولنگ منسوخ کردی گئی۔ اس کے علاوہ تریپورا میں سکیورٹی انتظامات کے مدنظر مشرقی تریپورا کے حلقے میں الیکشن ملتوی کردیا گیا۔
آج جن اہم سیاسی رہنماؤں کی قسمت الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں میں قید ہوگی ان میں سابق وزیر اعظم ایچ ڈی دیوے گوڑا، ڈریم گرل کے نام سے مشہور فلم اداکارہ اور بی جے پی کی رکن پارلیمان ہیمامالنی، فلم اداکار کانگریسی امیدوار راج ببر، جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلٰی ڈاکٹر فاروق عبداللہ، سابق وزیر داخلہ سشیل کمارشنڈے، وفاقی وزیر ڈاکٹر جتندر سنگھ، مہاراشٹر کے سابق وزیر اعلٰی اشوک چوان اور ڈی ایم کے پارٹی کی رہنما کنی موئی شامل ہیں۔
انتخابی عمل پر نگاہ رکھنے والی غیر حکومتی تنظیم ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک رائٹس (اے ڈی آر) نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ دوسرے مرحلے کے انتخاب میں حصہ لینے والے امیدواروں میں سے 23 فیصد مجرمانہ ریکارڈ کے حامل ہیں۔ اے ڈی آر کے کنوینر انیل شرما نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا، ’’امیدواروں نے کاغذات نامزدگی کے ساتھ جو حلف نامے داخل کیے ہیں ان کے جائزہ سے پتہ چلتا ہے کہ 23 فیصد امیدوار مجرمانہ پس منظر کے حامل ہیں۔ ان میں سے 17 فیصد کے خلاف سنگین جرائم کے مقدمات درج ہیں۔ انفرادی طورپر سب سے زیادہ 41 مقدمات اوڈیشہ کے سندر گڑھ پارلیمانی حلقہ سے کانگریس کے امیدوار جارج ٹرکی کے خلاف درج ہیں۔ ‘‘ اترپردیش میں سب سے زیادہ 28 مقدمات بلند شہر سے بی جے پی کے امیدوار یوگیش ورما کے خلاف درج ہیں۔ راج ببر کے خلاف جعلسازی سمیت چار مجرمانہ معاملات درج ہیں۔
اے ڈی آر کی رپورٹ کے مطابق سنگین جرائم کے معاملے میں سب سے زیادہ 38 فیصد مقدمات بھارتیہ جنتا پارٹی کے امیدواروں کے خلاف درج ہیں۔ اس کے بعد بہوجن سماج پارٹی کے امیدواروں کے خلاف 33 فیصد اور کانگریس کے امیدواروں کے خلاف 25 فیصد مقدمات درج ہیں۔
اے ڈی آر کے کنوینر انیل شرما کا کہنا تھا کہ دوسرے مرحلے کے امیدواروں میں 27 فیصد کروڑ پتی ہیں۔ تامل ناڈو کے کنیاکماری حلقہ سے کانگریس کے امیدوار بسنتا کمار 417 کروڑ روپے کے اعلانیہ اثاثوں کے ساتھ سب سے امیر امیدوار ہیں۔ جبکہ اترپردیش میں ہیمامالنی سب سے امیر امیدوار ہیں۔ انہوں نے حلف نامے میں ڈھائی سو کروڑ روپے کے اثاثوں کا ذکر کیا ہے۔ سب سے کم اثاثہ جات کا حلف نامہ آگرہ سے آزاد امیدوار امبیڈکر ی ہنسو رام نے دیا ہے۔ انہوں نے اپنے پاس صرف 1200 روپے کی جائیداد کا دعویٰ کیا ہے۔
اے ڈی آر کی رپورٹ کے مطابق دوسرے مرحلے کے امیدواروں میں تعلیمی لحاظ سے 29 امیدوار وں نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے جب کہ 26 نے اسکول کا منہ نہیں دیکھا ہے۔ انیل شرما نے امیدواروں کی تعلیمی صلاحیت کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا، ’’262 امیدوار پوسٹ گریجویٹ ہیں، 244 گریجویٹ،221 کے پاس پروفیشنل ڈگریاں ہیں، 223بارہویں پاس، 249دسویں پاس، 150آٹھویں پاس، 75پانچویں کلاس پاس ہیں جب کہ 35 نے پانچویں سے بھی کم تعلیم حاصل کی ہے۔ 26 کبھی اسکول ہی نہیں گئے، 67امیدواروں نے تعلیمی صلاحیت کا واضح ذکر نہیں کیا ہے جب کہ نو امیدواروں نے کوئی معلومات ہی نہیں دی ہے۔‘‘
دریں اثنا دہشت گردی کے خلاف جنگ کا دعویٰ کرنے والی حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کی جانب سے مالیگاؤں دہشت گردانہ حملہ کی ملزمہ سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر کو بھوپال پارلیمانی حلقہ سے اپنا امیدوار اعلان کیے جانے پر حیرت کا اظہار کیا جارہا ہے۔ 2008ء میں ہوئے بم دھماکے میں چھ افراد ہلاک اور ایک سو سے زائد دیگر زخمی ہوئے تھے۔ سادھوی پرگیہ پر دیگر دہشت گردانہ معاملات میں بھی ملوث رہنے کے الزامات ہیں۔ کانگریس کے قومی ترجمان میم افضل نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ بی جے پی کے پاس اب فرقہ پرستی اور ہندو مسلم رائے دہندگان میں صف بندی کرنے کے علاوہ کوئی چیز باقی نہیں رہ گئی ہے لیکن یہ اس کی غلط فہمی ہے کہ وہ ان بنیادوں پر الیکشن میں کامیاب ہوجائے گی۔ معروف نغمہ نگار جاوید اختر نے طنز کرتے ہوئے ٹوئیٹ کیا، ’’بی جے پی کی پسند واقعی قابل تقلید ہے۔ سادھوی پرگیہ، سنگھ پریوار کے نظریات اور کارناموں کی مکمل تشہیر ہیں۔ واہ ! واہ !! واہ!!!‘‘