تحریر : وقار احمد اعوان ملک میں جاری حالات کس جانب گامزن ہیں، یہ کوئی نہیں جانتا اورنہ ہی جاننے کی کوشش کرتا ہے۔ اور شاید یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے حالات روز بروز خراب ہوتے جارہے ہیں ۔جیسے گزشتہ روز معروف قوال امجد صابری کو کراچی میںبے دردی کے ساتھ شہید کردیا گیا ۔اس کا قصور کیا تھا شاید وہ بھی نہیں جانتا ہوگا۔۔ جیسے حضرت محمدۖ کی حدیث فرماتے ہیںکہ آخری وقت میں مارنے والا جانتا ہوگا اورنہ ہی مرنے والا۔افسوس آج ملک خداداد میں کچھ ایسے ہی حالات ہیں مرنے اور مارنے والا دونوں نہیںجانتے ۔اس کی بنیادی وجہ ہم ایک دوسرے سے غافل ہوچکے ہیں ہم یہ نہیںجانتے کہ ہمارے اردگرد کون رہ رہاہے؟کیا کرتاہے ؟کہاں جاتا ہے؟اورکہاںسے آتاہے؟
شیکسپیئر نے تو کہہ دیا تھاکہ دنیاایک سٹیج ہے اور ہم سب اس کے اداکار۔۔ہرکوئی آتا اور اپنا اپنا کردار ادا کرکے چلا جاتاہے۔آئیے شیکسپیئرکے اسی مفروضے کو ملک کے موجودہ حالات پر پورااترتے ہیں۔جیسے وہ کہتاہے کہ انسان پہلے پیداہوتاہے ۔۔۔مگر جناب یہاں تو انسان پیداہونے سے پہلے ہی ماردیاجاتاہے ۔۔آپ سوچ رہے ہونگے کہ پیداہونے سے پہلے کیسے مار دیاجاتاہے ۔۔ہم چونکہ اپنے آپ کو جدید دورکا انسان کہنے لگے ہیں اسلئے اب ہم اسلامی نکاح سے دوربھاگ کر اپنے اپنے لئے گرل فرینڈ زاور اور لڑکیاں بوائے فرینڈز ڈھونڈ رہے ہیں۔۔اس پر دونوں میں جوہوجاتاہے تو کیا اس کے بعد بھی کوئی انسان دنیامیں آئے گا ہر گز نہیں۔ کیونکہ اگر کسی انسان نے آنا ہوتاتو شادی ہوتی باقاعدہ زندگی شروع ہوتی۔۔معاشرہ کو بنانے کی سعی کی جاتی ۔۔
Shakespeare
لیکن ایسا نہیں کیا جاتا۔تو پھر ہم بے چارے شیکسپیئر کو کیوں کوسیں ۔۔یہاں بے چارے شیکسپیئر کا کیا قصور۔۔اس نے تو ویسے ہی ایک مفروضہ دے دیا تھا ۔۔آپ اسے سچ مانتے ہیںیا مذاق یہ آپ پر منحصر ہے۔البتہ شیکسپیئر کا مفروضہ تو معاشرہ کے بنانے کی جانب ایک مثبت قدم کہلاتاہے ۔۔جس سے معاشرہ بن کر ایک مضبوط قوم وجود میںآتی ہے۔لیکن جناب ہم نے کہاکہ ہم چونکہ اپنے آپ کو جدید دورکا باسی سمجھتے ہیں اورمغرب سے کچھ زیادہ ہی متاثر ہیں اس لئے ہمیں شادی جیسے مقدس رشتوںکی کوئی قدرنہیں۔آپ سوچ رہے ہونگے کہ ہمارا آج کا عنوان معروف قوال امجد صابری ہے۔بجائے امجدصابری پر بات کرنے کے ہم ادھر ادھرکی بات کیونکر کررہے ہیں۔۔توجناب بات تو یہی سے شروع ہوجاتی ہے۔۔ہم صرف جنازوںمیں ”انقلاب زندہ باد”کے نعرہ لگانے والے بن چکے ہیں۔۔
جہاں ہمارے اسلاف ایک تاریخ میں مشہورہیں وہاں ہماری تاریخ کہاں ہیں؟یا صرف ہم اپنے اپنے گھروںمیں کیلنڈررکھنا پسند کرتے ہیں،کہ کیسے مہینہ چھوٹاہوجائے اورہمیں پیسے یعنی تنخواہ ملے۔خیر بات ہورہی تھی امجد صابری کی۔۔کہ کیسے اس عظیم قوال کو سرعام شہید کیاگیا ۔۔اس انسان کے معصوم بچے آج بھی اپنے والد کا انتظارکرتے ہیں۔۔روتے ہیں۔۔تڑپتے ہیں۔۔سسکتے ہیں۔۔بلکتے ہیں۔۔مگر کچھ نہیںکرسکتے۔۔وجہ ہماری بے حسی۔۔بے بسی نہیں۔۔بے حسی۔۔آج ہماری بے حسی نے اس شخص کو بلکہ ہر اس شخص کو موت کے منہ میں جانے دیا جو معصوم ہے۔۔بے ضرر ہیں۔۔بے قصور ہیں۔۔اگر کوئی کہے کہ امجدصابری یا کسی اور نے کسی کے ساتھ کوئی زیادتی کی ہے۔۔تو جناب زیادتی کی ہے۔۔۔مارا تو نہیں۔زیادتی کا بدلہ زیادتی ہونا چاہیے۔
Police
موت نہیں۔ ہم حکمرانوں،انتظامیہ، پولیس وغیرہ کو کوستے ہیں۔کیا ہم نہیںجانتے کہ ہمارے اردگردکے لوگ کیاکررہے ہیں؟ کن کن کاموں میں ملوث ہیں؟ہمارے ہی محلے کا کوئی شرابی،کوئی چرسی،کوئی گلی کا غنڈا پولیس کے ہاتھوںچڑھ جاتاہے تو کیا ہم اپنی اعلیٰ تعلیم کے ساتھ اسے چھڑانے تھانے نہیںجاتے۔۔کیا کوئی بھی تعلیم یافتہ کوئی جرم کرکے بے چارے پولیس والے کی مٹھی یا جیب گرم نہیںکرتا۔۔سوچیں اورجواب دیں اگر ہمت ہے۔۔کیسے ہمت آئے گی ۔ہمت کے لئے جگرا ہونا چاہیے۔۔اوروہ ہم میںنہیں۔۔اگر ہوتی تو آج امجد صابری کے قاتل۔بلکہ ہراس شخص کے قاتل پکڑے جاتے جو آلو مولی کی طرح اپنی اپنی گردن ملک وقوم کے نام پر کٹوارہاہے۔کیا ہم باضمیر ہیں؟کیا ہم زندہ نہیں؟ہرگز نہیں ورنہ یوںروزہمارے اس ملک کے باشندے آلومولی گاجرکی طرح نہ کٹتے۔
آج ہماری بے حسی نے امجد صابری کو مارڈالا۔۔ہماری اپنی خودغرضی نے امجد صابری کو مارڈالا۔کیا ہم نہیں جانتے ۔۔یا ہم میںسے کوئی نہیںجانتا کہ کون مجرم ہے۔۔کون اس ملک او راس میںبسنے والے لوگوں کی گردنیں کاٹ رہاہے۔کیا ہم اتنا بھی معلوم نہیںکرسکتے۔افسوس ہماری زندگی ،ہماری سوچ اورہماری آئے روزکی کوششوںپر۔۔صدافسوس۔۔اگر حالات ایسے ہی رہے تو روزامجد صابری جیسے لوگ مریںگے۔ہماری بھی باری آسکتی ہے۔اس لئے ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے۔۔ورنہ ”چڑیا کھیت چگ جائیںگی”اورہم ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔ اس لئے ضرور ت ا س امرکی ہے کہ ہم نے اپنے دشمنوںکو پہنچاناہے ۔۔انہیںکیفر کردارتک پہنچانے میںاپنا مثبت کرداراداکرنا ہے۔