تحریر : علی عمران شاہین وطن عزیز کا آبادی کے لحاظ سے 13واں بڑا ضلع بہاولپور تاریخ میں اپنی یکتا ہی پہچان اور شان رکھتا ہے۔ یہ 1690ء کی بات ہے کہ یہاں کے ایک بڑے نواب، بہادر خان اول عباسی نے اس علاقے میں الگ عمل داری کا آغاز کیا۔ ان کے جانشین محمد بہاول خان اول نے محمد شاہ رنگیلا کے عہد (1719ء تا 1748ئ) میں اپنی آزاد ریاست قائم کر لی، یوں بہاولپور کا نام انہی کے نام سے منسوب ہوا۔ 1803ء میں دہلی پر برطانوی قبضے سے انگریزی حدود دریائے ستلج تک آ پہنچیں۔ بہاولپور کے نوابوں کی حیثیت، مرتبے اور عوامی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے انگریزوں نے 22 فروری 1833ء کو نواب محمد بہاول خان دوم کے ساتھ معاہدہ کیا کہ وہ اس خطے کے حکمران ہونے کے باوجود ریاست بہاولپور کی آزاد حیثیت کو ہاتھ نہیں لگائیں گے اور اس کی عمل داری پہلے کی طرح قائم رہے گی۔
بڑے بڑے ممالک کو رگیدنے اور ایک عالم پر فتح کا پرچم لہرانے والے انگریز نے بہاولپور کے نواب کے ساتھ ایسا معاہدہ آخر کیوں کر لیا؟ اس سوال کا جواب تلاش کرتے کرتے بات صحرا نوردی تک پہنچی اور پھرراقم 12فروری کو اپنے دوستوںرانا عمر فاروق اور حبیب الرحمن کے ہمراہ بہاولپور کے صحرائے چولستان میں عالمی شہرت یافتہ قلعہ دراوڑ جا پہنچا۔ چولستان کو مقامی لوگ ”روہی” بھی کہتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ چولستان کا ماخذ ترکی زبان کا لفظ ”چول” ہے جس کے معنی ریت کے ہیں۔
Cholistan Desert
چولستان کے لق ودق صحرا میں واقع قلعہ دراوڑ ایک مربع کی شکل میں واقع ہے۔ یہاں تک پہنچتے پہنچتے راستے بھر میں ”بندئہ صحرائی” بھی دیکھنے کو ملتا ہے کہ جس کی زندگی یہیں ریت میں کٹ جاتی ہے۔ اس صحرا کے قلب میں واقع اس 220میٹر کے چوکور قلعہ کے چہار اطراف 40 ”گڑھے” یا برج ہیں۔ یوںلگتا ہے کہ ریت کے سمندر میں ایک بڑا جہاز یہاں لنگرانداز ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ قلعہ ہندو ریاست جیسلمیر کی ملکیت تھا جسے یہاں کے بھٹی راجہ کے بھانجے نے بنایا تھا۔ اس وقت سے یہ قلعہ راجستھان کے راجپوت حکمرانوں کے زیر قبضہ رہا۔
موجودہ تاریخ بتاتی ہے کہ اس قلعہ کو بہاولپور کے نواب محمد بہاول خان اول نے 1733ء میں دوبارہ تعمیر کیا۔ انہوں نے اس قلعہ کو پوری طرح اپنی عمل داری میں لینے کے بعد اس کے اندر اور باہر دو عالیشان مساجد تعمیر کر دیں۔ ان کی دین سے محبت کا عالم یہ تھا کہ قلعے کے مرکزی داخلی دروازے کے عین سامنے وسیع و عریض مسجد کا محراب بنایا گیا۔
قیام پاکستان کے زمانے میں ریاست بہاولپور کے والی نواب سر محمد صادق خان عباسی تھے۔ یہ نواب محمد صادق خان ہی تھے جن کے بارے میں 26فروری 2014ء کو برطانوی اخبار دی لندن پوسٹ نے ایک واقعہ شائع کیا کہ نواب صاحب ایک بار لندن آئے تھے تو سڑک پر چلتے چلتے انہیں اس زمانے کی سب سے پرآسائش گاڑی ”رولز رائس” کا شوروم نظر آ گیا۔ وہ شو روم کے اندر چلے گئے۔ وہاں انہیں ایک گاڑی پسند آ گئی تو انہوں نے وہاں سیلز مین سے گاڑی کی قیمت معلوم کرنا چاہی۔ سیلزمین نے انہیں عام لباس اور سادہ وضع قطع کے باعث عام ایشیائی شہری سمجھ کر دھتکار دیا۔ نواب صاحب واپس ہوٹل پہنچے اور اگلے روز شاہی ٹھاٹھ باٹھ اور ملازمین کا جتھہ لے کر شوروم پہنچے اور وہاں سے 6رولز رائس کاریں خرید کر ملازمین کو حکم دیا کہ ان گاڑیوں کو فوراً بہاولپور پہنچا کر وہاں کی بلدیہ کے حوالے کرو اور انہیں پیغام دو کہ ان گاڑیوں سے شہر کی سڑکیں صاف کرنے اور کوڑا اٹھانے کا کام لیا جائے۔
نواب صاحب کے حکم پر ایسا ہی کیا گیا تو تھوڑے ہی دنوں میں اس بات کی بازگشت دنیا بھر میں سنائی دینے لگی کہ رولز رائس تو وہ گاڑی ہے جو انگریز کے غلام ملک کی ایک ریاست کے ایک شہر کی صفائی پر مامور ہے۔ یوں رولز رائس کمپنی مذاق بن گئی اور اس کے کاروبار کا مندا شروع ہو گیا۔ حالت یہاں تک پہنچی کہ رولز رائس کمپنی کا مالک خود چل کر بہاولپور پہنچا اور اس نے نواب صاحب سے معافی مانگنے کے بعد گزارش کی کہ ان کی کمپنی کی گاڑیاں اس کام سے ہٹائی جائیں اور وہ تحفے میں مزید 6گاڑیاں بھی پیش کرتے ہیں۔ نواب صاحب تو وسیع الظرف انسان تھے، انہوں نے تحفہ قبول کیا اور پھر ان 6گاڑیوں میں سے ایک گاڑی بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کو بھی پیش کر دی۔ یہ وہی نواب تھے کہ جنہوں نے پاکستان بننے کے بعد حکومت پاکستان کو 70 ملین روپے کا عطیہ دیا تھا۔ وہ پاکستان سے محبت میں اس قدر سرشار تھے کہ اپنی ریاست کو اپنی 1955ء میں پاکستان میں ضم کرنے کا اعلان کر دیا۔
Cholistan
یہ نواب صادق ہی تھے جنہوں نے پنجاب یونیورسٹی، کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج اور ایچی سن کالج کے لئے بھی ذاتی زمین عطیہ کی تھی۔ یہ وہی نواب صاحب تھی کہ جو ایک بار حج کے لئے پہنچے تو اپنے ساتھ گاڑیوں کا ایک قافلہ بھی لے کر آئے تھے۔یہ وہ دور تھا جب یہاں تیل کی دولت دریافت نہیں ہوئی تھی اور آج کی خوشحالی کا تصور بھی نہیں تھا۔اسی پر نواب صاحب نے حج سے فراغت کے بعد انہوں نے یہ گاڑیاں مقامی حکومت کو تحفہ میں دے دی تھیں۔ کیسا المیہ ہے کہ مسلمانان برصغیر کی غیرت و عظمت کے شہر بہاولپور اور اس کے صحرائے چولستان کے بیچوں بیچ کھڑے قلعہ دراوڑ کو آج ایک جیپ ریلی کی وجہ سے شہرت بخشنے کی کوشش ہو رہی ہے جس کی اب میڈیا کے ذریعے بھی بھرپور تشہیر کی جاتی ہے۔ اس سال اس جیپ ریلی کا انعقاد 12سے 14فروری تک کیا گیا تھا۔ 13 فروری کی شام صحرائے چولستان میں یہاں کی سڑکوں پر گاڑیوں کا وہ ہجوم تھا کہ الامان و الحفیظ… ہر طرف ریت، مٹی اور گردوغبار کا طوفان، سانس لینا تو کجا، چہرہ ننگا رکھنا بھی ناممکن۔ اور تو اور، کسی بنیادی سہولت کا نام و نشان نہیں اور لوگ ہیں کہ دیوانوں کی طرح ہزاروں گاڑیاں دوڑاتے ہی چلے آ رہے ہیں۔ چولستان کی یہ سڑک تنگ ہے اور اس پر موٹرسائیکلوں ہی نہیں، گاڑیوں کی ٹکریں ہو رہی ہیں۔
جگہ جگہ چھوٹی بڑی کئی گاڑیاں الٹی، تباہ حال دیکھیں اور کتنے لوگ زخموں سے چور آہیں بھرتے کراہتے دیکھے۔ بار بار خیال آیا کہ یا اللہ! یہ سب لوگ یہاں کیا لینے آئے بیٹھے ہیں۔ نام تفریح کا ہے لیکن یہاں تو بدترین عذاب کی کیفیت ہے اور شیطانی تماشے کی اس دوڑ میں ہر کوئی یہ سب بھی جھیلنے کو تیار ہے۔ یہاں کے صحرا میں جان و مال دائو پر لگا رہے ہیں۔ کئی کئی ملین کی قیمتی گاڑیاں ریت میں پھنسی کھڑی ہیں، لوگ پریشان حال ہیں۔ رفع حاجت کی نوبت آئے تو اس کیلئے کوئی جگہ نہیں۔ چہرہ دھونے کے لئے پانی نہیں لیکن نجانے یہ سب کیوں قبول ہے۔
مذہبی کاروبارکا حال دیکھئے کہ اس سال گیارہویں سالانہ جیپ ریلی تھی تو عین قلعے کے پاس یہاں کے ایک شخص نے ”مزارات اصحاب رسول” کے نام سے دربار بنا دیا ہے۔ جیپ ریلی کے آغاز سے پہلے یہاں ایسے کسی مزار کا کسی کو شائبہ بھی نہیں تھا بس چند کچی پکی قبریں ضرور تھیں۔یہاں پہلی نظر سے دیکھتے ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ 14 فٹ لمبی، 5فٹ بلند اور 4 فٹ چوڑی چار قبریں اور مقبرہ تازہ تازہ ہی بنے ہیں اور ”اصحاب رسول” کے نام بھی ایسے لکھے گئے ہیں جو کسی بھی کتاب میں ڈھونڈنے سے نہ ملیں… طیب، جواد، جوار اور طاہر ،لیکن یہاں اب لوگوں کا ہجوم دیکھنے کو ملتا ہے۔
تفریح کے نام پر دھکے کھاتے ،ذلت اٹھاتے لوگوں کو دیکھ سیکھ کرخیال بار بار اس طرف جائے کہ ان لوگوں کیلئے تو مسجد جانے کی ہر روز پانچ بار صدا لگتی ہے۔ صاف ستھری مساجد، دنیا کی ہر سہولت کا اہتمام، اللہ سے ملاقات جیسا انعام… لیکن یہ سب تو ایمان بالغیب کی باتیں ہیں، جُہلاء کا اس طرف تو دھیان نہیں لیکن لق ودق صحرا میں یہاں سب کچھ برباد کرنے پر سبھی تیار ہیں۔ یہاں ایسے کام پر کتنا پیسہ برباد ہوا، حساب ممکن نہیں لیکن اگر یہی پیسہ متصل صحرائے تھر میں خرچ ہو تو یقین ہے کہ کوئی معصوم تڑپ تڑپ کر نہ مرے اور کوئی شہری بھوکا نہ سوئے… جانے یہ سوچ کب اور کیسے آئے گی۔؟