جب سے چوہدری پرویز الہی کے میڈیا سیل نے گورنر پنجاب چوہدری سرور کے خلاف کی جانے والی باتوں کی ویڈیو لیک کی ہے تب سے ہی پی ٹی آئی مخالف افراد کی طرف سے ایک طوفان برپا ہے کسی طرف سے پنجاب میں چار وزراء اعلی تو دوسری طرف سے پانچ وزرا ء اعلی کی آوازیں لگائی جارہی ہیں تو کئی مخالفین چوہدری سرورچوہدری سرور کی سیاست میں مداخلت پر افسوس کا اظہار کررہے ہیں پنجاب میں اختیارات کی جنگ پی ٹی آئی والوں کے درمیان نہیں یا یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ وزیاعلی پنجاب عثمان بزدار اور گورنر پنجاب چوہدری سرور کے درمیان اختیارات کی رسہ کشی بلکل نہیں بلکہ پنجاب میں حکمرانی کے لیے مسلم لیگ ق اور انکے خیر خواہوں کی خواہش اور کوشش ہے جس کے لیے یہ ساری چالیں چلی جارہی ہیں اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پنجاب میں میڈیا سے تعلق رکھنے والوں کی ایک اچھی خاصی تعداد چوہدری پرویز الہی کے لیے باقاعدہ ایک مہم چلا رہے ہیں اور انہوں نے عثمان بزدار کی مخالفت پہلے دن سے ہی کرنا شروع کر دی تھی۔
اصل میں چوہدری برادران کے خیر خواہوں کی خواہش تھی کہ پنجاب میں وزارت اعلی کا تاج چوہدری پرویز الہی کے سر پر رکھا جاتا مگر عمران خان نے عثمان بزدار کو وزیراعلی پنجاب بنایا تو پھر اسکے خلاف باقاعدہ مہم کے انداز میں مہم جوئی شروع کردی گئی کبھی چوہدری پرویز الہی کے قریبی ساتھی علیم خان کو میدان میں اتارا گیا تو کبھی جہانگیر ترین کو اقتدار کی رسہ کشی میں گھسیٹا گیا اور اب تو چوہدری پرویز الہی نے اپنے خاص آدمی طارق بشیر چیمہ کے زریعے بھی چوہدری سرور کو کنٹرول کرنے کا کہلوا دیااور خود بھی اسکی تائید کردی طارق بشیر چیمہ بہاولپور سے پی ٹی آئی کی حمایت کی وجہ سے جیتے ہیں اور اب وفاقی وزیر ہیں ایک بات اور کہ مسلم لیگ ق کو جتنی بھی سیٹیں ملی ہیں وہ بھی تحریک انصاف کی مرہون منت ہے ورنہ اس بار ق لیگ کا صفایا ہوجانا تھا مگر پنجاب میں اقتدار کی رسہ کشی میں ق لیگ زیادہ سے زیادہ حصہ لینے کی کوششوں میں مصروف ہے۔
اکثر صوبہ میں اہم سیٹوں پر تبادلوں پر اختلافات بھی سامنے آئے ہیں مگر عثمان بزدار جو خود بھی چوہدری برادران کا حصہ ہی سمجھے جاتے ہیں نے کسی سے کوئی شکوہ کیے بغیر اپنے معاملات جاری رکھے ہوئے ہیں اور اب تک انکا یہی سب سے بڑا کارنامہ ہے کہ انہوں نے صوبہ بھر سے 35ہزار کنال سے زائد سرکاری زمین قبضہ گروپوں سے واگذار کروالی ہے یہ بہت بڑا کارنامہ ہے حالانکہ جتنی مخالفت اس وقت انکی کی جارہی ہے وہ شائد ہی آج تک کسی اور وزیر اعلی کی ہوئی ہو مگر بزدار ڈتا ہوا ہے کیونکہ اسے کپتان کی مکمل حمایت حاصل ہے اور اس وقت عثمان بزاد کی مخالفت جتنی حکومت میں شامل افراد کررہے ہیں اتنی تو اپوزیشن کی طرف سے بھی نہیں ہورہی اور یہ سب مخالفتیں انہی کی طرف سے ہورہی ہیں جو یہ سمجھتے تھے کہ وزیراعلی کا عہدہ انہیں ملے گا ان میں مسلم لیگ ق سمیت پی ٹی آئی کے وزرا بھی شامل ہیں اور ایسے لوگ وہ چھپے دشمن ہیں جو پیٹھ پیچھے وار کرکے اپنا الو سیدھا کرلیتے ہیں اور اس وقت پنجاب میں گورنر چوہدری سرور اور وزیراعلی عثمان بزدار جو کام کررہے ہیں وہ کوئی بھی وزیر اور پارٹی رہنما نہیں کر رہا چوہدری سرور جب مسلم لیگ ن کے دور میں گورنر تھے تو اس وقت بھی انہوں نے گورنر ہاؤس کی چاردیواری میں خود کو بند رکھنے کی بجائے عام لوگوں کی خدمت کی خاص کر لاہور جیسے شہر میں جہاں صاف پانی ملنا محال ہوچکا ہے۔
انہوں نے مختلف علاقوں میں واٹر فلٹریشن پلانٹ لگا کر شہریوں کو بیماریوں سے بچایا حالانکہ وہ یہ کام نہ کرتے تب بھی ان سے کسی نے نہیں پوچھنا تھا اور عمر کے جس حصے میں وہ اس وقت ہیں تو لوگ آرام کرتے ہیں مگر آفرین ہے ان پر اور انکی بیوی پر جو دن رات عوام کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں اگر انہوں نے بہاولپور میں کسی پارٹی ورکر کا دکھ درد دور کرنے کے لیے کسی کو کوئی احکامات دیدیے تو طارق بشیر چیمہ کو اس بات پر افسردہ نہیں ہونا چاہیے ہوسکتا ہے کہ چیمہ صاحب کے پاس اتنا وقت نہ ہو کہ وہ ق لیگی کارکنوں کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی کے ورکروں کا بھی خیال رکھ سکیں وزارت کے ساتھ ساتھ ق لیگ کے معاملات کو بھی دیکھنا ہوتا ہے کیونکہ جب وہ ن لیگ کے دور میں فراغت کی زندگی گذار رہے تھے تب بھی انکے پاس اپنے ق لیگی ورکروں کے لیے وقت نہیں ہوتا تھا اور پولیس اس وقت کے ایم این اے سعود مجید کے کہنے پر انہیں پکڑ پکڑ کر تھانوں میں بند کرتی رہتی تھی تاکہ انکی طارق بشیر چیمہ سے وفاداری تبدیل کرواسکیں مگر ایک بات واضح ہے کہ عمران خان جو فیصلہ کرلیتا ہے۔
اس پر پھر قائم بھی رہتا ہے اور عثمان بزادر کے متعلق جو وزیراعظم نے کیا تھا وہ بلکل ویسے ہی ہیں اور امید ہے کہ چوہدری سرور بھی اپنے ہی مخالفین کی باتوں کو نظر انداز کرکے عوام کی خدمت کا مشن جاری رکھیں گے کیونکہ اگر انہیں روکنے کی کوشش کی گئی تو وہ ایک بار پھر گورنرکی نوکری پر لات مار سکتے ہیں وہ پاکستان آئے ہی عوام کی خدمت کرنے ہیں اور اس خدمت سے انہیں عمران خان تو روکیں گے نہیں اور جن کو انکی خدمات سے تکلیف پہنچتی ہے وہ سوائے باتوں کے کچھ کرنہیں سکتے کیونکہ پنجاب میں بزدار اور سرور کا عوامی خدمت اور عمران کے کے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا جو عظم اور کٹھ جوڑہے اسکے راستہ میں جو رکاٹیں آئیں گی یا پیدا کی جائیں گے وہ اپنی موت خود بخود مرجائیں گی اس لیے کسی کے کہنے سے نہ کوئی کنٹرول ہوگا اور نہ کسی کے اندر اختلافات پیدا ہونگے مگر جو وزرا اور انکے حمایتی وزیر اعلی بننے کا خواب دیکھنے میں مصروف ہیں انکی آنکھ اس وقت کھلے گی جب عمران خان اپنی حکومت کے سو دن مکمل کرنے کے بعد قوم سے خطاب کرینگے۔