کراچی: جمعیت علماء پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل اور مرکزی جماعت اہل سنت کے نگران اعلیٰ شاہ محمد اویس نورانی صدیقی نے کہا ہے کہ پشاور اسکول سانحہ کے ذمہ دار دھرنے والے عناصر بھی ہیں کیوں کہ ملک کے حفاظتی اداروں کی توجہ دھرنے کے شرکاء کی حفاظت اور دھرنے کے پس منظر میں موجود پالیسی میکر پرتھی،ایسے میں دشمن کو موقع ملا اور انہوں پشاور اسکول پر حملہ کر کے سینکڑوں بچوں کو شہید کردیا، اگست آزادی کا مہینہ ہے مگر اسے فحاشی کا مہینہ بنانے کے لئے پھر سے دھرنے کی صدا بلند کی جا رہی ہے جس کا مقصد قوم کی بہو بیٹیوں کو سڑکوں پر لایا جائے گا، سینکڑوں کشمیریوں کی بہیمانہ شہادت پر خاموش رہنے والے اپنے کارکنان کی لاشوں پر سیاست کرنا چاہتے ہیں، بار بار دھرنا کر کے پھر مک مکا کیا جاتا ہے۔۔
قوم ان سے بیزار ہوچکی ہے، یہ بات واضح طور پر ثابت ہوچکی ہے کہ دھرنا اب حتمی عمل نہیں رہا ہے اور نہ ہی کسی قومی مسئلے کا حل ہے، قومی اور عوامی مسائل کا حل صرف اور صرف پارلیمنٹ میں کی جانے والی جمہوری سیاست ہے، ماہانہ تھنک ٹینک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے جمعیت علماء پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل اور مرکزی جماعت اہل سنت کے نگران اعلیٰ شاہ محمد اویس نورانی صدیقی نے کہا کہ ڈی چوک پر کسی بھی قسم کے عناصر کو جمع نہ ہونے دیا جائے، وزیر داخلہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ اب اسلام آباد کو یرغمال نہیں بنایا جائے گا، دھرنے کے اسباب وفاقی حکومت خود فراہم کرتی ہے، بعد میں کوئی دارلخلافہ کی طرف بڑھتا ہے تو حکومت انہیں مکمل وقت دیتی ہے کہ وہ اسلام آباد پہنچ جائیں، ملک کے وسیع تر مفاد اور امن کے لئے ہر فیصلے کی بھرپور حمایت کریں گے، ، جرائم پیشہ عناصر کی محفوظ پناہ گاہیں کراچی کی حدود سے باہر شروع ہوتی ہیں۔۔
کیا پیپلز پارٹی جرائم پیشہ عناصر کو کسی خاص مقصد کے لئے پالنا چاہتی ہے، ترکی میں جمہوری قوتوں کی کامیابی، کشمیر کاز پر دفتر خارجہ کی کمزور حکمت عملی، حالیہ بارشوں کے لئے حکومت کی نہ کیے جانے والے حفاظتی اقدامات، اسلام آباد میں پھر سے شروع ہونے والی دھرنا سیاست پر بحث اور حکمت عملی ترتیب دینے کے لئے بلائے گئے ماہانہ تھنک ٹینک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے شاہ محمد اویس نورانی صدیقی نے کہا کہ قصاص نہ ہوا بیاض ہوگیا، ہر چھہ مہینے بعد وصولی کی تحریک چلائی جاتی ہے، کارکنان کی لاشوں اور ان کے گھروالوں کا مذاق بنایا جا رہا ہے۔۔
فل اسٹاپ لگایا جائے،دھرنا پارٹیوں کو سجا سجایا اسٹیج دینے میں سب سے بڑا کردار وزیر داخلہ کا ہے، اگر وزیر داخلہ اپنے کام سے ایمانداری کریں تو پھر اسلام آباد یرغمال نہیں بنایا جا ساکتا ہے، بارشوں اور سیلاب کے بعد کے نقصانات سے بچنے کے لئے گزشتہ حکومت کی طرح سے موجودہ حکومت بھی ناکارہ رہی اور کوئی بھی پالیسی ترتیب نہ دے سکی، لوڈ شیڈنگ کے موجودہ بحران کو دیکھتے ہوئے کوئی نہیں کہہ سکتا کہ 2020تک بھی لوڈ شیڈنگ ختم ہونے کا کوئی امکان ہے، ترکی میں عوامی انقلاب مسلسل جدوجہد سے آیا نہ کہ بے مقصد دھرنوں سے جس کا حاصل و حصول کچھ نہیں تھا، پاکستان ابھی تک کشمیر پر کوئی واضح پالیسی مرتب نہیں کر سکا ہے۔۔