فیصل آباد : سنی اتحاد کونسل کے 50 مفتیانِ کرام نے کوٹ رادھا کشن میں مسیحی جوڑے کو زندہ جلانے کے واقعہ پر جاری کیے گئے اپنے اجتماعی فتویٰ میں کہا ہے کہ مسیحی میاں بیوی کو زندہ جلانے والوں کا عمل اسلام کے منافی ہے۔ اس المناک واقعہ میں ملوث افراد نے قرآن و سنّت کے احکامات کی صریح خلاف ورزی کر کے بدترین گناہ اور سنگین جرم کا ارتکاب کیا ہے اور خدا کی مقررکردہ حدود سے تجاوز کیا ہے۔ مسیحی جوڑے کو زندہ جلانے والے فساد فی الارض کے مرتکب ہوئے ہیں جبکہ اسلام قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دیتا۔ کسی بھی جرم کی سزا دینا ریاست کا کام ہے اور آگ میں جلانے کی سزا دینا صرف اﷲ تعالیٰ کا حق ہے۔
اسلامی شریعت میں محض الزام کی بنیاد پر بغیر تحقیق و تفتیش سزا دینے کی اجازت نہیں ہے۔ جرم ثابت ہونے کے بعد بھی سزا سنانا عدالت اور اس پر عمل ریاست کی ذمہ داری ہے۔ اسلامی ملک میں رہنے والی اقلیتوں کے جان و مال کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری ہے۔ سانحۂ کوٹ رادھا کشن ریاست کی ناکامی اور لاقانونیت و جنونیت کا مظہر ہے۔ نبی کریمۖ کے عہد ِ رسالت میں ذمیوں (اقلیتوں) سے جو معاہدے کیے گئے ان میں ان کے جان و مال کی حفاظت کی ذمہ داری لی گئی اور انہیں اپنی عبادات کی ادائیگی میں مکمل آزادی فراہم کی گئی۔ کوٹ رادھا کشن کے واقعہ میں اگر واقعی قرآن پاک کی بے حرمتی ہوئی ہے تو اس کا مقدمہ درج کروا کر حقائق کو پرکھنا لازم تھا۔
مسیحی جوڑے کو زندہ جلانے والوں کا کھیل پوری دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کی رسوائی کا سبب بنا ہے اور اس واقعہ سے دین دشمن قوتوں کو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف منفی پراپیگنڈے کا موقع ملا ہے۔ فتویٰ میں کہا گیا ہے کہ فساد اور انتشار کی ہر کوشش کا راستہ روکنا حکومت اور عوام پر لازم ہے۔ علماء معاشرے میں عدم برداشت کے بڑھتے رجحان کو روکنے کے لیے اپنی ذمہ داریاں پوری کریں اور معاشرے میں امن، محبت، رواداری، برداشت اور بھائی چارے کی فضا پروان چڑھانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ اسلام رواداری اور برداشت سکھاتا ہے۔ اسلامی تعلیمات میں مسلم و غیرمسلم سب انسانوں کے درمیان عدل و انصاف کا حکم دیا گیا ہے۔
بین المذاہب ہم آہنگی کی کوششیں تیز کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مذاہب کو لڑانے اور اسلام کو بدنام کرنے کی سازشوں کا خاتمہ کیا جا سکے۔ مذہب کے غلط استعمال کا بڑھتا رجحان تشویشناک ہے۔ اس منفی روش کو روکنے کے لیے مذہبی راہنما سر جوڑ کر بیٹھیں اور متفقہ لائحہ عمل تیار کریں۔ فتویٰ میں کہا گیا ہے کہ اسلام قتل ناحق کا سب سے بڑا مخالف اور انسانی جان کی حرمت کا سب سے بڑا علمبردار ہے۔ اسلام ایک انسان کے قتل کو ساری انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیتا ہے۔ فتویٰ میں کہا گیا ہے کہ کوٹ رادھا کشن میں جن افراد نے خود ہی عدالت لگائی، خود ہی وکیل بنے اور خود ہی منصف بن کر فیصلہ کیا، انہوں نے شریعت اسلامیہ اور پاکستانی قوانین کا مذاق اڑایا ہے۔ ایسے افراد کو قرارواقعی سزا دی جائے تاکہ آئندہ کوئی ایسا اقدام نہ کرے۔ فتویٰ میں کہا گیا ہے کہ قرآن پاک کی بے حرمتی کفر ہے۔ اقلیتوں پر بھی لازم ہے کہ وہ اسلامی شعائر کا احترام کریں۔
فتویٰ میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ جادوٹونے کرنے والے عاملوں، جادوگروں اور جعلی پیروں کے خلاف کارروائی کی جائے اور انہیں ریاستی گرفت میں لایا جائے کیونکہ ان کے گندے اعمال کی وجہ سے معاشرے میں انتشار اور فساد پھیل رہا ہے۔ فتویٰ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں قانون کی حکمرانی اور قانون کا خوف بتدریج کم ہو رہا ہے جس کے باعث معاشرے میں کمزور اور بے بس طبقات پر ظلم و زیادتی بڑھ رہی ہے۔ یہ کلچر ریاست کے وجود کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ کوٹ رادھاکشن میں اگر میاں بیوی قرآن پاک کی بے حرمتی کے مجرم تھے تو اہل علاقہ کی شکایت پر پولیس نے ان کو گرفتار کیوں نہیں کیا۔ فتویٰ میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ سانحۂ کوٹ رادھا کشن کی آزادانہ اور منصفانہ تحقیقات کروا کر اصل حقائق قوم کے سامنے لائے جائیں۔
جن مفتیانِ کرام نے فتویٰ جاری کیا ہے ان میں مفتی محمد حسیب قادری، مفتی محمد سعید رضوی، مفتی محمد کریم خان، مفتی محمد اقبال چشتی، مفتی مشتاق احمد نوری، علامہ صداقت علی اعوان، مفتی امیر علی صابری، مفتی امان اﷲ شاکر، مفتی مسعود الرحمن، علامہ نعیم جاوید نوری، علامہ محمد ارشد نعیمی، مفتی نذیر احمد، مفتی عبدالحق دریائی، علامہ سیّد شمس الدین بخاری، علامہ محمد اصغر شاکر، علامہ محمد عرفان صدیقی، علامہ محمد طاہر، مفتی محمد حسین صدیقی، مولانا غلام سرور حیدری، مولانا محمد اکبر نقشبندی، مولانا محمد وزیرالقادری، مفتی سعید اظہر، علامہ حامد سرفراز، علامہ شرافت علی قادری، علامہ محمد عابد اچھروی، علامہ لیاقت علی صدیقی، علامہ اظہار احمد چشتی، علامہ محمد مستقیم قادری، علامہ محمد سلیم ہمدمی، علامہ ارشد مصطفائی، علامہ محمد حنیف چشتی، علامہ بشارت علی، علامہ محمد اجمل نوری، علامہ محمد ایّوب چشتی، علامہ سلیم افضل چشتی، علامہ محمد رمضان حیدری، علامہ قاری محمد عبدالخالق، علامہ طالب حسین فریدی، علامہ محمد اشفاق، علامہ محمد صدیق قمری اور دیگر شامل ہیں۔