ایک اور مسیحی کے سر پر تلوار

Newspapers

Newspapers

تحریر: واٹسن سلیم گل، ایمسٹرڈیم
مجھے یاد ہے کہ بچپن میں جب مجھے تندور سے روٹیاں یا نان خرید کر لانے کے لئے بھیجا جاتا تھا تو تندور والا ہمیشہ روٹیوں کو اخبار میں لپیٹ کر دیتا تھا۔ اور ہم بعد میں اس اخبار کو کچرے میں پھینک دیا کرتے تھے۔ میرے والد اخبار پڑھا کرتے تھے تو بعد میں ان اخبارات کو جمح کرتا تھا اور ردی والے کا انتظار کرتا تھا۔ مجھے اس وقت معلوم نہی تھا کہ یہ ردی والا آخر پرانے اخبارات کا کرتا کیا ہے۔ میں تو اخبار ردی والے کو بیچ کر ٹافی یا یونین کے بسکٹ خریدتا تھا۔ کچھ بڑا ہوا تو معلوم ہوا کہ ردی والا ان پرانے اخبارات کو کباڑی کی دکان پر بیچ دیتا ہے اور کباڑی ان پرانے اخبارات کے بڑے بڑے بنڈل بنا کر آگے ری سئیکلینگ کے لئے فروخت کر دیتا ہے۔ مجھے یاد نہی کہ اس وقت کبھی کسی نے یہ سوچا ہو کہ ان اخبارات پر قرانی آیات، زکر الہی اور اسم الہی موجود ہیں۔

کباڑی کی دکان پر ان اخبارات کے بنڈل کو کرسی کے طور پر استمال ہوتے میں نے بہت بار دیکھا ہے۔ لوگوں کو ان اخبارات کے بنڈلوں پر بیٹھتے ہوئے میں نے کئ بار دیکھا ہے۔ اس کے علاوہ کراچی میں صدر ، ریگل چوک اور بہت سی جگہوں پر اخبارات زمین پر بچھا کر ان پر پتھر رکھ کر بیچے جاتے تھے۔ مگر کوئ دھیان نہی دیتا تھا۔ اور توہین اسلام پر بات نہی کرتا مگرآج یہ ہی کام اگر غلطی سے کم عقلی سے نا سمجھی سے کسی مسیحی سے سرزد ہو جائے تو عدالت بھی وہی لگ جاتی ہے اور فیصلہ سنا کر سزا بھی خود ہی دے دی جاتی ہے۔ توہین رسالت کے قانون کا ایک نیا شکار قصور سے تعلق رکھنے والا ایک مسیحی نوجوان نبیل مسیح ہے جس کی عمر 16 سال ہے اور نہایت غریب خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔ نبیل 6 سال کا تھا جب اس کی ماں جہان فانی سے صرف اس لئے کوچ کر گئ کہ اس کے باپ کے پاس علاج کے لئے پیسے نہی تھے۔

Court

Court

نبیل مسیح کے ایک مسلمان دوست نے پولیس کو یہ شکایت کی ہے کہ نبیل مسیح نے خانہ کعبہ کے متعلق توہین آمیز تصویر لائق کی ہے۔ جس سے ان کے مزہبی جزبات مجروع ہوئے ہیں۔ یہ واقعہ 18 ستمبر کو پیش آیا جب نبیل مسیح اپنے دو دوستوں بخت خان اور صدام کے ساتھ بخت خان کے موبائل فون پر تصویریں دیکھ رہا تھا۔ اسی کے دوستوں نے اس کی فیس بک کی آئ ڈی کھولی تو اس میں خانہ کعبہ سے متعلق توہین آمیز تصویر کو نبیل نے لائق کیا ہوا تھا۔ بس اس کے خلاف توہین رسالت کا مقدمہ درج ہو گیا اور اسے گرفتار کر کے جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بیجھ دیا گیا۔ اس واقعہ کی خبر پھیلتے ہی علاقے کے مسیحی خاندان اپنی جان بچانے کے لئے اپنے گھر بار چھوڑ کر فرار ہوگئے۔ نبیل چوہان ولد امانت مسیح چک 66 بھائ پھیرو کا رہایشی ہے اور اس کے علاقے کے لوگ اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ نبیل کے سارے دوست مسلمان ہے اور نبیل ان پڑھ ہے اور گھی کی ایک فیکٹری میں مزدوری کرتا تھا۔

اس کا بڑا بھائ جو کہ بجلی کے محکمے میں صفائ کا کام کرتا ہے بہت بری طرح جلھس چکا ہے چند ماہ قبل مون سون کی بارشوں میں ورکشاپ میں پانی بھرا ہوا تھا اس کے فورمین نے اس پر دباؤ ڈالا کہ کمپریسر کے نیچے صفائ کرو جیسے ہی اس نے صفائ شروع کی وہ بجلی کے جھٹکوں کی زد میں آکر بری طرح سے جلُھس گیا۔ اس کا کہنا ہے کہ فورمین کو شک تھا کہ کمپرسر میں کرنٹ ہے اور اس نے صرف اپنے شک کو دور کرنے کے لئے اسے صفائ کرنے کو کہا۔ یہ خاندان پہلے ہی غربت کی لکیر سے بھی انتہائ نیچے زندگی بسر کر رہا ہے اب نہ ان کے پاس وکیل ہے نہ ہی انصاف۔ مجھے سمجھ نہی آتا کہ پہلے تو پاکستان میں توہین رسالت کے قانون کے غلط استمال پر مظاہرے اور احتجاج ہو سکتے تھے۔ مگر اب تو یہ بھی مشکل ہو گیا ہے۔ مجھے کوئ بتائے گا کہ پاکستانی مسیحی انصاف کے لئے کونسا دروازہ کھٹکھٹاہیں۔

Christian

Christian

پاکستان کے نوے فیصد مسلمان خود بھی یہ بات مانتے ہیں کہ توہین رسالت کے قوانین میں مسیحیوں کی ساتھ زیادتی ہوتی ہے مگر یہ نوے فیصد تو کیا کوئ دس فیصد مسلمان بھی مسیحیوں کی حمایت میں آواز بلند نہی کرتے۔ ایک مسیح اگر اس قانون کی زد میں آتا ہے تو اس کی سزا پوری مسیحی آبادی کو دی جاتی ہے۔ آپ مسیحیوں کے مخدوش حالات کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ چند مسیحی خاندان شانتی نگر کے سانحے کے بعد فرار ہو کر گوجرہ میں اپنی زندگی کا آغاز کرتے ہیں ۔ گوجرہ کے واقعہ کے بعد یہ خاندان اسلام آباد کی جھوپڑ پٹی میں اپنی نئ دنیا بساتے ہیں مگر وہاں سے رمشا مسیح کے کیس کے بعد پھر کسی نئ منزل کی تلاش میں نکل جاتے ہیں۔ کیا یہ زیادتی نہی ہے۔ ہم اگر اپنے مسیحی بہن بھائیوں کے لئے آواز بلند کرتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ ہم پاکستان کا نام بدنام کر رہے ہیں۔

اگر ہم خاموش ہوتے ہیں تو کوئ اور فورم موجود نہی جو ان کو انصاف دلا سکے۔ کتنے مسیحی اس وقت جیلوں میں اپنے ناکردہ گناہ کی سزا بھگت رہے ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ اگر کوئ واقئ توہین کرتا ہے تو آپ اسے سزا دیجئے مگر کسی کی انجانی غلطی پر اسے موت سے بھی زیادہ شرمناک سزا دینا کہاں کا انصاف ہے۔ ایک مسیحی خاتون ایک مسلمان گھر میں گھر کی صفائ کے دوران غلطی سے قران چھو لیتی ہے تو وہ موت کی حقدار ہو جاتی ہے۔ کیا کوئ ایسے مسلمان سے پوچھے گا کہ بھائ آپ کا قران شریف فرماتا ہے کہ آخری نبی ، رسول عربی تمام جہانوں کے لئے رحمت ہیں تو پھر کیسے آپ ان کی تعلیمات کے خلاف جا سکتے ہیں اور کیسے اپنے آپ کو سچا مسلمان کہتے ہیں۔

بہت سے توہین رسالت کے مقدموں کے فیصلے صرف اس لئے نہی ہو رہے کہ مسلمانوں کے جزبات بھڑک سکتے ہیں۔ اس کے لئے بہت سے مسیحی بے گناہ ہونے کے باوجود بھی جیلوں میں سڑ رہے ہیں۔ اگر عدالت بے گناہ قرار دیتی ہے تو باہر قتل کر دیئے جاتے ہیں ورنہ جیل میں بھی زندگی موت سے زیادہ بھیانک ہے۔ خدارا انصاف کیجئے یہ اقلیتیں آپ کے پاس امانت ہیں۔ ان کے لئے ہم مسیحیوں سے پہلے آپ اپنی آواز بلند کریں۔ یہ بھی سچے اور پکے پاکستانی ہیں۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آپ کسی پر ظلم کر کے اللہ تعالی کے عزاب سے بچ نہی سکتے۔ آپ انصاف نہی کرو گے مگر وہ آپ کا انصاف ضرور کرے گا۔

Watson Gill

Watson Gill

تحریر: واٹسن سلیم گل، ایمسٹرڈیم