تحریر : واٹسن سلیم گل دنیا جہان میں کرسمس کا دن ایک عالمی تہوار کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ مسیحی اسے مسیح ابن مریم کی پیدائش کے دن کے طور پر مناتے ہیں اور غیر مسیحی اسے جشن کے دن کے طور پر مناتے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ 25 دسمبر کا دن مسیح کی پیدائیش کا اصل دن نہی ہے مگر چونکہ مسیح کی پیدائش ایک حقیقت ہے اور دنیا کے دو بڑے مزاہب یعنی کرسچنز اور مسلمان اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ مسیح ابن مریم ایک کنواری سے پیدا ہوئے اس لئے زیادہ ضروری یہ ہے کہ اس بات کو مانا جائے کہ وہ دنیا میں تشریف لائے، کس تاریخ کو تشریف لائے اس پر ہماری ابتدائ کلیسیا نے مل کر ایک دن یعنی 25 دسمبر مخصوص کر دیا۔ اب مخالف مسیحی اس بات کا شور کر رہے ہیں کہ اس دن کو ختم کر دیا جائے جو مسیحیت کی سب سے بڑی پہچان بن چکا ہے۔ کچھ مغرب کےنام نہاد تاریخ دان تو اس سلسلے میں مصروف تھے ہی مگر کچھ پاکستانی مسیحی نام نہاد پاسٹرز بھی جن کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے ان مغرب کے مسیح مخالفوں کی ویڈیوز کو دیکھ کر ان کی نقل کر کے لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں۔ کہتے ہیں (1) کرسمس کا بائیبل میں زکر نہی ہے ۔(2) کہ یہ دن سورج کے دیوتا کا دن ہے۔(3) کہ کرسمس منا کر ہم دراصل بت پرستی کرتے ہیں ۔ (4) کہ ہمیں یہودیوں کی عیدیں منانی چاہیں ۔ یہ ٹھیک ہے کہ کرسمس کا بائبل میں زکر نہی ہے۔ مگر مقدس کتابیں ہمیں اچھائ اور برائ میں تفریق کا بنیادی اصول سیکھاتی ہیں۔ بائبل میں کمپیوٹرکا زکر نہی ہے مگر ہم کمپیوٹر استمال کرتے ہیں یہ مشین نیکی اور برائ دونوں اعمال کے لئے استمال ہوتی ہے۔
ٹیلوژن پر بھی آپ اچھے اور برُے دونوں قسم کے پروگرام دیکھ سکتے ہو بائبل نے اصول وضع کر دیا ہے اب فیصلہ آپ نے کرنا ہے۔ کرسمس کا زکر بائبل میں موجود نہی ہے مگر دنیا جہان کے مسیحی اس دن کو یسوع مسیح کے جنم دن کے طور پر مناتے ہیں۔ ہاں آج کل اس کے منانے کے انداز پر ہم تنقید کر سکتے ہیں کہ بہت سے لوگ اس دن شراب اور رنگ رلیاں کرتے ہیں یہ غلط ہے مگر اسی طرح کروڑوں مسیحی کرسمس کے دن چرچ جاتے ہیں کوائیرز میں مسیح کی پیدائش کے حوالے سے گیت گاتے ہیں غریبوں اور بیماروں کی مزاج پرسی بھی کرتے ہیں۔ یہ ویسے ہی ہے جیسے میں نے کمپوٹر اور ٹی وی کی مثال دی ہے ۔جواب (2) نقایہ کی کلیسیا نے 324 بعد مسیح میں کانسٹنٹائن بادشاہ کے زمانے میں کرسمس منانے کا فیصلہ کیا ۔اس بادشاہ کے مسیحیت قبول کرنے کے بعد مسیحیوں کو تبلیغ کی آزادی ملی اگر ہم یہ مان بھی لیں کہ اس دن یعنی 25 دسمبر کو سورج دیوتا کی عید منائ جاتی تھی تب بھی یہ ایک اچھا قدم تھا کہ بادشاہ وقت نے ایک بت پرستی کے دور کو ختم کر کے اس دن کو مسیح کی پیدائش کے طور پر مخصوص کر دیا اور آج کسی کو یاد بھی نہی کہ 25 دسمبر کبھی سورج دیوتا کا دن ہوا کرتا تھا۔
جواب(3) ہم کرسمس کے دن کو یسوع مسیح کی سالگرہ کے دن کے طور پر مناتے ہیں تو یہ بت پرستی کیسے ہو گئ۔ اس دن لوگ چرچز میں جمح ہو کر سورج دیوتا کی نہی بلکہ خدا کی عبادت کرتے ہیں۔ گیت اور زبور گاتے ہیں۔ 2اعشاریہ 8 بلین مسیحیوں میں سے ننانوے فیصد کو تو شاید یہ معلوم بھی نہ ہوگا کہ یہ دن کبھی کسی دیوتا کے لئے منایا جاتا تھا۔ جواب (4) ہمیں پرانے عہد نامے کی عیدیں منانی چاہیں یہ ہماری صوبدید پر ہے کیونکہ اگر ہم مزکورہ عیدیں مناتے ہیں تو یہ عیدیں قربانی کے بغیر مکمل نہی ہوتیں۔ اور چونکہ ہمارے لئے مسیح نے قربانی دے دی اس لئے اب ہمیں قربانی کی ضرورت نہی۔
Christmas
یسوع مسیح نے ہمیں پرانے عہدنامے کے حقیقی معنی سمجھائے ہیں۔ حکم تھا کہ سبت کے دن کوئ بدنی محنت کا کام نہ کرنا مگر لوقا 6 باب اسکی پہلی چھ آیات میں ہمیں اس کا مطلب سمجھ میں آتا ہے۔ یہ نام نہاد عالم کہتے ہیں کہ نہ کرسمس مناؤ نہ ایسٹر یعنی ہم مسیح کا کوئ ایک دن بھی نہ منایں مگر انجیل ہمیں بتاتی ہے کہ مسیح یسوع کا دن تھا پہلا کرنتھیوں اسکا پانچوا باب اسکی پانچویں آیت ہمیں بتاتی ہے کہ مسیح یسوع کا دن بھی تھا اور عید بھی تھی اسی باب کی سات اور آٹھ آیت ہمیں بتاتی ہے کہ ہماری فسع ہمارے مسیح یسوع کی قربانی تھی یہ وہ فسع نہی تھی جس کا زکر پرانے عہدنامے میں ہے۔ بلکہ یہاں کسی نئ عید کا زکر ہے لکھا ہے ” پس آو ہم عید کریں” انگریزی ترجمے میں بھی لفظ( پاس اوور) الگ لکھا ہے مگر آٹھویں آیت میں لفظ فیسٹیول لکھا ہے۔ میں نے لگ بھگ اٹھارہ انگریزی کے تجمے دیکھے ہیں جن میں کیہں فیسٹیول اور کہیں سیلیبریشن کا لفظ آیا ہے۔ یہ کہنا قطئ طور پر غلط اور لغو ہے کہ کرسمس کا تہوار منانا بت پرستی کرنا ہے۔ ہاں ہمیں کرسمس کو پاک انداز سے منانے کی ضرورت ہے۔ یہ بھی غیر مناسب اور نامعقول بات کہ محض اپنی بات سچ ثابت کرنے کے لئے جھوٹ بولا جائے کہا جاتا ہے نیکولاٹینز جن کا بائبل میں زکر ہے وہ وہی ہے جس سے کرسمس فادر متاثر ہو کر وجود میں آیا۔
اعمال 6باب 5 آیت میں ایک شاگرد نیکولاس کو چُنا گیا بعد میں کلیسیا کو شکایت ملی کہ نیکلاس کاگروپ مسیحی تعلیم کے برخلاف کام کر رہا ہے جس پر ایک اعلی درجے کی کلیسائ کونسل 49 بعد مسیح کے یروشلم میں منعقد کی گئ اور نیکولاس گروپ کو بدعت قرار دے دیا۔ مگر ایک بشپ نیکولاز جو کہ اس واقعہ کے چار سو سال کے دور سے تعلق رکھتا ہے۔ اسے اس واقعہ سے جوڑنا مسیحیوں کو گمراہ کرنے کی سازش ہے۔ چلو ایک لمحے کے لئے مان لیں کہ سینٹ نیکولاز وہی تھا جسے کلیسیا نے بدعت قرار دیا تھا تو کیا جو کرسمس فادر غریب بچوں کو تحائف دیتا ہے کیا وہ ہمیں یہ تعلیم دیتا ہے کہ ہم گلا گھونٹے جانور، بتو کی قربانی کے گوشت اور خون پیئں اور حرام کاری کریں۔ جیسا کہ اعمال کی کتاب 15 باب کی 29 آیت میں مرقوم ہے۔ کیا کوئ باشعور انسان یہ مانے گا کہ کرسمس ٹری کے نیچے پڑے ہوئے تحائف اٹھانے کے لئے جھُکنا مطلب اسے سجدہ کرنا ہے۔
میں جانتا ہوں کہ کرسمس، کرسمس فادر یا کرسمس ٹری کا ہماری نجات سے برائے راست کوئ تعلق نہی ہے اور ہم اگر ان تینوں چیزوں کو ترک بھی کر دیں تو اس سے ہماری مسیحیت پر کوئ فرق نہی پڑے گا مگر اختلاف کرنے کا بھی کوئ اخلاقی ،اصولی اور علمی جواز ہونا چاہئے، ہم گورو کی ویڈوز دیکھ کر اتنے متاثر ہو جاتے ہیں کہ ان کو کاپی کرتے وقت یہ بھی نہی دیکھتے کہ جو یہ کہہ رہے ہیں اس میں کوئ منطق یا کوئ دلیل بھی ہے یا نہی۔ کبھی بھی ناقص ،کمزور ، نا پختہ ، اور خستہ معلومات کے ساتھ اتنے نازک مسائل پر بات نہی کرنی چاہئے۔ میری جانب سے تمام مسیحیوں کو کرسمس مبارک اور تمام پاکستانی بشمول مسلمان دوستوں کو نیا سال اور نئ خوشیاں مبارک۔