تحریر : واٹسن سلیم گل گزشتہ ہفتے جنگ لندن میں کرسمس فادر کے حوالے سے ایک رپورٹ نظروں سے گزری جس میں ماہرین نفسیات اور سوشل سٹڈ یز کے ماہرین نے کرسمس فادر کے کردار پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ سانتا کلاز کے جھوٹے کردار کی وجہ سے ماں باپ اور بچوں کے تعلق کو نقصان پہنچتا ہے ۔ان ماہرین کے خیال میں سانتا کلاز کاروپ دھارے لوگ بچوں میں تحائف تقسیم کرتے ہیں اس طرح کی کہانیاں بچوں کے اعتماد کو کم کرتی ہیں اور اخلاقی اعتبار سے بھی مشکوک رہتی ہیں ۔ اس رپورٹ کو پڑھنے کے بعد میں یہ سوچنے لگا کہ کیا ماں باپ کا اپنے بچوں سے تعلق اتنا کمزور ہوتا ہے کہ اس طرح کے افسانوی کردار ان کے تعلقات پر اثرانداز ہو سکتے ہیں اور کیا ہمارے معاشرے میں صرف سانتا کلاز ہی واحد افسانوی کردار ہے اور کیا صرف اسی کردار سے بچوں پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں میں کرسمس فادر کے حوالے سے بات کرتے ہوئے یہ ہی کہونگا کہ اس کردار کا مسیحی مزہب سے کوئ تعلق نہی ہے اس کردار کے حوالے سے مختلف روایات موجود ہیں۔ ایک روایت ہے کہ
سانتا کلاز دراصل ڈچ کردار سینٹرکلاس کی کوکھ سے جنما ہے اور سینٹرکلاس چوتھی صدی سے تعلق رکھنے والے ایک یونانی کھتولک بشپ سینٹ نکولاز کی شخصیت سے مرعوب ہو کر وجود میں آیا ہے ۔اگر آپ سانتا کلاز کو ایک طرف رکھ کر صرف اس کے کردار کے اعمال پر نظر ڈالیں تو آپ کو اس میں ایک ایسا شخص نظر آئے گا جو کرسمس کے موقع پر بچوں میں تحائف تقسیم کرتا ہے اس کے علاوہ یہ کردار ایک خاموش کردار ہے۔آج کل سانتا کلاز 6 دسمبر سے یورپ کے دیگر ممالک میں مختلف مقامات پر بچوں میں بغیر رنگ، نسل اور مزہب کے تحائف تقسیم کرتا ہے۔ زیادہ تر تحائف بچوں کے ماں باپ خود خرید کر دیتے ہیں۔
مگر اسکولوں کے بچے اور کچھ سماجی تنظیمیں بہت سے تحائف غریب ممالک کے بچوں کو بھیج دیتے ہیں۔ سینٹ نکولاز کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ غریبوں کی مدد کرتے وقت اس بات کا خیال رکھتے تھے کہ وہ خود سامنے نہ آیں۔ اسی طرح سانتا کلاز بھی ان بچوں میں تحائف تقسیم کرتے تھے جن کے پاس کرسمس کے دن کچھ نہی ہوتا تھا۔ وہ یہ تحائف خاص طور پر رات کے وقت پہنچاتے تھے۔ جب بچے سو رہے ہوتے تھے۔ پھر بھی ان غریب بچوں میں احساس کمتری نہ ہو اس لیے وہ چہرے پر داڑھی لگا کر اپنا گیٹ اپ تبدیل کر کے رات کے وقت تحائف ان بچوں کے ماں باپ کے حوالے کرتا تھا اور ماں باپ اپنے بچوں کو بتاتے تھے کہ سانتا کلاز ہرنوں کی بگی پر سوار ہو کر آیا اور ان کے لے تحفے چھوڑ گیا۔
Give the Gift of Christmas
اس واقعہ کے بعد بہت سے اچھے لوگوں نے غریب بچوں کی مدد کرنے کا یہ انوکھا طریقہ اپنا لیا اس سے غریبوں کی مدد بھی ہو جاتی اور ان کی عزت و نفس بھی مجروع ہونی سے بچ جاتی تھی ۔میرا ان ماہرین سے سوال ہے کہ سانتا کلاز کے علاوہ بھی بہت سے افسانوی کردار ہمارے درمیان میں موجود ہیں ۔ کیا سپر مین ، بیٹ مین اور ٹارزن جیسے کرداروں سے بچوں کے اخلاق پر اثر نہی پڑتا کیا ماں باپ خود اس طرح کے جھوٹے کردار بچوں کو کھلونوں کی صورت میں خرید کر دیتے ہیں اور ان کرداروں کی فلمیں دکھاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک پری ہے جو بچوں کے دانت ٹوٹنے کہ بعد ان کے تکیے کے نیچے پیسے چھوڑ جاتی ہے۔ میری چھوٹی بیٹی سارہ کے دودھ کے دانت ٹوٹ رہے تھے تو وہ ہر دانت ٹوٹنے کے بعد مجھے یاد کراتی تھی کہ دانت والی پری رات کو پیسے چھوڑ کر جائے گی۔ ایک بار میرے پاس چھوٹے پیسے نہی تھے تو میں نے صبح اپنی بیٹی سے کہا کہ وہ پری آئ تھی مگراس کے پاس کھلے پیسے نہی تھے۔ تو میری بیٹی نے کہا کہ میں اس پری کو فون کر دوں کہ کل تک اس کے پاس پیسے ہونے چاہیں ۔ میں نے اندازہ لگایا کہ بچوں کو آہستہ آہستہ حقیقت معلوم ہو جاتی ہے۔
بچے تو بچے ہیں ساوتھ ایشیا میں کتنے بالغ ہیں جو ہیر رانجھا کو یا رومیو جولیٹ کو افسانوی کردار سمجھنے کے بجائے حقیقت سمجھتے ہیں۔۔ اسی طرح ہمارے کچھ نام نہاد پادری کرسمس ٹری کے حوالے سے انتہائ بونگے اور غیر منطقی دلائل دے کر کرسمس ٹری کو بت پرستی قرار دیتے ہیں۔ دنیا کے تمام مسیحی بشمول پاکستانی مسسیحی کرسمس ٹری کو محض ایک سجاوٹ کی چیز کے علاوہ کچھ نہی سمجھتے ۔میرے گھر میں کرسمس ٹری کا ڈبہ سارا سال اسٹور میں پڑس رہتا ہے دسمبر کے مہینے میں نکال کر جھاڑ پونچھ کر سجاتا ہوں پھر اسٹور میں پھینک دیتا ہوں۔ برطانیہ سے تعلق رکھنے والے ایک پاکستانی پاسٹر صاحب جو میرے دوست بھی ہیں کرسمس ٹری کو پوجنے کی دلیل یہ دیتے ہیں کہ ہم جب کرسمس ٹری کو سجا کر اس کے نیچے کرسمس کے تحائف رکھتے ہیں اور جب ہم کرسمس ٹری کے نیچے رکھے تحائف کو اٹھاتے ہیں تو ہمارا وہ جھکنا دراصل کرسمس ٹری کے آگے جھکنا ہوتا ہے یہ تو بڑی عجیب بات ہو گئ یعنی دن میں آپ اگر کسی بھی چیز کے لیے غیرارادی طور پر جھکتے ہیں تو مطلب آپ اپنے سامنے والی دیوار ، ٹیبل ،کرسی یا شخص کو سجدہ کرتے ہیں۔
بھرے بازار میں آپ کے ہاتھ سے کوئ چیز گری آپ نے جھک کر وہ چیز زمین سے اٹھائ تو آپ ایماندار سے کفار میں شامل ہو گئے۔ کیا ہمارا ایمان اتنا کمزور ہو گیا ہے کہ ہم ہر وقت ڈرے سہمے رہتے ہیں کہ ہمارا ایمان خراب نہ ہو جائے۔ کوئ پوچھتا ہے کہ کیا حال ہے میں کہتا ہوں الحمدللہ تو کہتے ہیں کہ “بھائ کیا مسلمان ہو گئے ہو؟” ۔ کوئ پوچھتا ہے کہ پسندیدہ تاریخی کردار کونسا ہے میں کہتا ہوں سدھارت گوتم بدھا تو کہتے ہیں کہ “بھائ کیا بدھسٹ ہوگیا ہے؟”۔ ہمیں اپنے بچوں کی پرورش ایسے ماحول میں کرنی چاہئے کہ ان سے ہمارا دوستی کا رشتہ برقرار رہے۔ میرا یہ ماننا ہے کہ وسیع النظری کبھی بھی آپ کے ایمان کو کمزور نہی بناتی۔