واشنگٹن (جیوڈیسک) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ملکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے پر عائد ہونے والی اس ادارے کے بیرون ملک کیے جانے والے ڈرون حملوں میں عام شہریوں کی ہلاکتوں کی باقاعدہ اطلاع دینے کی لازمی شرط منسوخ کر دی ہے۔
امریکا کی سینٹرل انٹیلیجنس ایجنسی (سی آئی اے) اب تک اس بات کی پابند تھی کہ اگر اس کی طرف سے کیے گئے ڈرون حملوں میں کوئی عام شہری بھی مارے جاتے ہیں، تو وہ باضابطہ طور پر اعلیٰ حکومتی حلقوں کو بے قصور انسانوں کی ایسی ہلاکتوں سے لازمی طور پر آگاہ کرے۔
یہ شرط سی آئی اے کی انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں میں ڈرون طیاروں سے کیے جانے والے فضائی حملوں میں زیادہ شفافیت کے لیے ریپبلکن ڈونلڈ ٹرمپ کے ڈیموکریٹ پیش رو صدر باراک اوباما نے دو سال قبل متعارف کرائی تھی۔ اس لازمی شرط کو صدر ٹرمپ نے بدھ چھ مارچ کی رات ایک پالیسی فیصلے کے تحت منسوخ کر دیا۔
کئی ماہرین کا کہنا ہے کہ اپنے پیش رو صدر اوباما کے مقابلے میں قطعی متضاد سمت میں بہت بڑے بڑے فیصلے کرنے والے ریپبلکن صدر ٹرمپ نے اپنی سیاست میں ملکی خفیہ ایجنسیوں، خاص طور پر سی آئی اے پر بہت زیادہ انحصار کرنے کی سوچ اپنا رکھی ہے۔
متعدد تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکی ڈرون حملوں میں کسی بھی ملک میں سویلین ہلاکتوں کی رپورٹنگ کی شرط منسوخ کر کے ڈونلڈ ٹرمپ نے پھر ثابت کر دیا ہے کہ وہ سی آئی اے پر بہت زیادہ اعتماد بھی کرتے ہیں اور انحصار بھی۔ لیکن اس کا ایک نقصان یہ بھی ہو گا کہ سینٹرل انٹیلیجنس ایجنسی اب ڈرون حملوں میں شہری ہلاکتوں سے متعلق ممکنہ طور پر ’زیادہ رعایت‘ لے سکے گی۔
صدر ٹرمپ نے اس شرط کی منسوخی کا تحریری حکم بھی جاری کر دیا ہے۔ اس بارے میں وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کونسل کے ایک ترجمان نے کہا کہ امریکی حکومت ڈرون طیاروں کے ذریعے اپنی کارروائیوں میں ’انتہائی احتیاط سے کام لیتی ہے‘۔ لیکن افسوس کہ عام شہریوں کی ہلاکتوں کے امکان کا مکمل خاتمہ ممکن نہیں۔
سن 2016 کے وسط سے ڈارتانياں نامی يہ عقاب فضا ميں ممکنہ خطرات سے نمٹنے اور انہيں ناکارہ بنانے کی تربيت حاصل کر رہا ہے۔ موں دے مارساں ايئر بيس پر ڈارتانياں کے علاوہ ايتھوس، پارتھوس اور ارامس کو بھی اسی کام کے ليے تربيت فراہم کی گئی ہے۔ ان تمام عقابوں کو اليگزاندرے دوماس کے تاريخی ناول ’دا تھری مسکٹيئرز‘ کے کرداروں کے نام ديے گئے ہيں۔
اس ترجمان نے اپنی شناخت ظاہر کیے بغیر نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا، ’’سویلین ہلاکتوں کو رپورٹ کرنا ایک غیر ضروری عمل اس لیے تھا کہ ایسی کسی رپورٹنگ سے حکومتی شفافیت کو تو بہتر نہیں بنایا جا سکتا، لیکن اس عمل سے خفیہ ایجنسیاں اپنے اس کام پر توجہ نہیں دے سکتیں، جو ان کا بنیادی فرض ہے۔‘‘
صدر ٹرمپ کے اس فیصلے کے بارے میں امریکا کی شہری آزادیوں کی یونین کے نیشنل سکیورٹی پروجیکٹ کی ڈائریکٹر حنا شمسی نے کہا کہ اس صدارتی فیصلے سے امریکا میں معاملات کو خفیہ رکھنے کی سوچ کو دی جانے والی تقویت کا ثبوت ملتا ہے، وہ بھی ان انسانی ہلاکتوں کے بارے میں جن کا امریکا بیرون ملک مرتکب ہوتا ہے۔ حنا شمسی نے ٹرمپ کے اس حکم نامے کو ’انتہائی غلط اور عوامی سطح پر احتساب کے لیے بہت خطرناک‘ قرار دیا۔
امریکی خفیہ ادارے مجموعی طور پر دوسرے ممالک میں جتنے بھی ڈرون حملے کرتے ہیں، ان میں ہر سال بہت سے دہشت گردوں اور عسکریت پسندوں کے علاوہ کافی تعداد میں عام شہری بھی مارے جاتے ہیں۔