اسلام آباد (جیوڈیسک) حکومت نے منی بجٹ میں سگریٹ اور مہنگے موبائل فون پر ڈیوٹی بڑھانے اور ای او بی آئی کی کم سے کم پنشن 10 ہزار روپے کرنے کی تجویز پیش کر دی۔
قومی اسمبلی میں ترمیم شدہ مالیاتی بل پیش کرتے ہوئے وزیر خزانہ اسد عمر نے کہا کہ معیشت کو استحکام، روزگار اور برآمدات میں اضافہ ہماری ترجیحات ہیں، ملک کو قرضوں کے بوجھ سے نکالنا بھی ہماری ترجیح ہے، ارکان اسمبلی کی بجٹ تجاویز پر غور کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال مالیاتی خسارہ 6.6 فیصد تک پہنچ گیا تھا، معاشی طور پر ملک کو مشکل حالات کا سامنا ہے، توانائی کے شعبے میں گزشتہ سال ساڑھے 4 سو ارب روپے کا خسارہ ہوا، گیس کے شعبے میں 100ارب روپے سے زائد کے خسارے کا سامنا ہے، گیس کے تمام معاہدے ڈالر میں ہوتے ہیں، کل کا فیصلہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے، اگر ہم نے فیصلے نہ کیے تو زرمبادلہ ذخائر مزید گرسکتے ہیں اور موجودہ صورتحال میں خسارہ 7.2فیصد تک پہنچ سکتا ہے۔
وزیر خزانہ کا کہنا تھاکہ ملک پر بیرونی قرضے 95 ارب ڈالر تک پہنچ چکے ہیں، ملکی زر مبادلہ کے ذخائر خطرناک حد تک گر چکے ہیں، گزشتہ چند ماہ میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں 20 روپےکمی آچکی ہے، روپے کی قدر میں کمی سے عام آدمی بری طرح متاثر ہوتا ہے، روپے کی قدر میں کمی سے عام اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے، روپے کی قدر میں کمی سے پٹرول مزید 20 روپے مہنگا ہو سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ خطرناک معاشی حالات سے نکلنے کیلئے مشکل فیصلے کرنا ہوں گے، قرضے 1200 ارب روپے تک پہنچ چکے ہیں، فیصلہ کرنا ہےکیا ہم اسی طریقے سے آگے چلتے رہیں گے یا آگے چلنے کی کوشش کریں گے، ہمارا مقصد غریب اور متوسط طبقے پر بوجھ کم کرنا ہے۔
اسد عمر کا کہنا تھا کہ بجٹ میں صوبوں کا مجموعی خسارہ 18 ارب روپے تھا، جو بجٹ پیش کیا گیا اس میں محصول کی ادائیگیوں کےہدف میں 300 ارب کا فرق ہے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ کسان کی آسانی کیلئے کھاد کی ترسیل بڑھارہے ہیں، وزیراعظم نے فیصلہ کیا ہے کہ صحت انصاف کارڈ کا اجراء کیا جائے، انصاف کارڈ کے تحت علاج کیلئے 5 لاکھ 40 ہزار روپے تک اخراجات دیئے جائیں گے، مزدوروں کے لیے 10 ہزار گھروں کی تعمیر کی منظوری دے دی ہے، 8276 گھروں کی تعمیر کے لیے ساڑھے 4 ارب روپے ریلیز کیے جائیں گے۔
اسد عمر نے اعلان کیا کہ امپلائز اولڈ ایج بینفٹ انسٹی ٹیوٹ (ای او بی آئی) پنشنرز کی کم سے کم پنشن میں 10فیصد اضافہ کیا جارہا ہے، پٹرولیم لیوی ٹیکس میں اضافہ نہیں کیا جائے گا، پٹرولیم لیوی ٹیکس کی مد میں 300 ارب روپے اکٹھے کیے جائیں گے، صنعتوں کیلئے 44 ارب روپے کی سبسڈی کا اعلان کرچکے ہیں، ریگولٹری ڈیوٹی کی مد میں ایکسپورٹ انڈسٹری کو 5 ارب روپے کا ریلیف دے رہے ہیں۔
سالانہ 12 لاکھ آمدنی والوں سے اضافی ٹیکس وصول نہیں کیا جا رہا: وزیرخزانہ اسد عمر کہنا تھا کہ مالی سال 2018 میں 661 ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ تھا، رواں مالی سال ترقیاتی بجٹ 725 ارب روپے کر دیا گیا ہے، دیامر اور بھاشا ڈیمز کو 6 سال میں تعمیر کیا جائے گا، ڈیم کے لیے مختص رقم میں کوئی کمی نہیں ہو گی اور سی پیک میں بھی کوئی تبدیلی نہیں ہوگی جب کہ وزیرا اعظم، وزراء اور مراعات یافتہ طبقے کے لیے ٹیکس چھوٹ کم کردی گئی ہے۔
انہوں نے کہاکہ 900 درآمدی اشیاء پر ایک فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی اور 5 ہزار درامدی اشیاء ایک فیصد کسٹمز ڈیوٹی لگانے کی تجویز ہے جب کہ نان فائلر کیلئے گاڑی خریدنے پر عائد پابندی ختم کرنے کی تجویز ہے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ مختلف طریقے سے جو اچھا ہوا اسے رکھیں گے لیکن تبدیلی کی ضرورت بھی ہے، 30 سال میں ہم نے کوئی کامیابی حاصل نہیں کی، 10 سال پہلے بھی ہم مشکل حالات میں تھے،یہ ملک اللہ تعالیٰ کی دین ہے، صرف ہمارے آباؤ اجداد کی محنت سے نہیں بنا، یہ ملک اور قوم ضرور ترقی کریں گے۔
وزیر خزانہ کے مطابق بجٹ میں تجویز دی گئی ہےکہ تنخواہ دار طبقے کے لیے سلیب 6 سے بڑھا کر 8 کردیئے اور تنخواہ دار طبقے کے لیے انکم ٹیکس میں ایک لاکھ 20 ہزار روپے تک اضافہ کردیا گیا جب کہ زیادہ سے زیادہ ٹیکس 4 لاکھ 80 روپے سے بڑھا کر 6 لاکھ روپے کردیا گیا۔
4 سے 8 لاکھ روپے سالانہ آمدن تک ایک ہزار روپے ٹیکس ادا کرنا ہوگا 8 سے 12 لاکھ روپے سالانہ آمدن پر 2 ہزار روپے ٹیکس ادا کرنا ہوگا 12 سے 24 لاکھ روپے سالانہ آمدن پر 5 فیصد فکسڈ ٹیکس دینا ہوگا 24 سے 30 لاکھ روپے سالانہ آمدن پر نیا سلیب متعارف کرا دیا گیا ہے 24 سے 30 لاکھ روپے آمدن پر 60 ہزار روپے فکسڈ ٹیکس ادا کرنا ہوگا 24 لاکھ سے زائد اور 30 لاکھ روپے سے کم آمدن پر 15 فیصد اضافی ٹیکس دینا ہوگا 30 سے 40 لاکھ روپے آمدن پر 20 فیصد فکسڈ ٹیکس ادا کرنا ہوگا 30 سے 40 لاکھ روپے آمدن پر 150،000 روپے اضافی ٹیکس ادا کرنا ہوگا 40 سے 50 لاکھ روپے آمدن پر 25 فیصد ٹیکس ادا کرنا ہوگا 40 سے 50 لاکھ روپے آمدن پر 3 لاکھ 50 ہزار اضافی ٹیکس ادا کرنا ہوگا 50 لاکھ روپے سے زائد آمدن پر 29 فیصد ٹیکس ادا کرنا ہوگا 50 لاکھ روپے سے زائد آمدن پر 6 لاکھ روپے اضافی ٹیکس ادا کرنا ہوگا وزیر خزانہ کی پریس کانفرنس
دوسری جانب بجٹ کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیرخزانہ اسد عمر نے کہا کہ ٹیکس کا بوجھ صرف امیروں پرڈالا ہے، تمام چیزوں کے نتائج سامنے میں وقت لگے گا، ہم نے صاحب ثروت لوگوں پر زیادہ بوجھ ڈالا ہے، خسارے کوقرضہ لےکرپورا کیا جارہا ہے اور قرضوں پر سود کی ادائیگی کے لیے بھی قرضے لیے جارہے تھے۔
اسد عمر کا کہنا تھا کہ سیلری کلاس کے لیے زیادہ سے زیادہ ٹیکس 25 فیصد کردیا ہے اور نان سیلری کلاس کے لیے زیادہ سے زیادہ ٹیکس 29 فیصد ہے، نان فائلرز گاڑی اور پراپرٹی خرید سکتے ہیں۔
وزیر خزانہ نے کہاکہ حکمرانی بہتر کرنے کے لیے اقدامات کررہے ہیں، چوروں کے خلاف کارروائی کے لیے فوری اقدامات کرنے ہوں گے، تمام اقدامات کے نتائج آنے میں تھوڑا وقت لگےگا، امید ہے بند فیکٹریوں جلد چلنی ہونا شروع ہوجائیں گی۔
اسد عمر کا کہنا تھا کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کا تخمینہ 18 سے 21 ارب ڈالرز ہے اور گزشتہ مالی سال کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 18 ارب ڈالرز تھا، اسٹیٹ بینک کے ذخائر تیزی سے گررہے ہیں، ٹیکس ریفارمز کمیشن کی تجاویز سے اصلاحات کا آغاز کریں گے، برآمدکنندگان کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا ہوگا۔