تحریر : ایم سرور صدیقی میں سکندر کو کئی دہانیوں سے جانتا ہوں اپنے نام کے بر عکس۔ کولہو کے بیل کی طرح محنت مشقت کرنے والا۔ وہ پہلے جیسا ہے آج بھی نہیں بدلا سکندر اپنے گلے میں بڑا سالکڑی کا بکس سجائے خواتین کی روز مرہ کی اشیاء گلی گلی محلے محلے بیچتا پھرتا ہے ماضی کی طرح اب اس میں وہ پھرتی، طاقت اور چستی نہیں رہی لیکن پھر بھی محنت سے جی نہیں چراتا معاشی حالات کا رونا، رشتہ داروں دوستوں اور محلے داروں سے شکایات اور غربت تنگدستی کی باتیں وہ پہلے بھی کرتا تھا اب اس میں شدت آ گئی ہے سردی، گرمی، دھوپ، چھائوں اور آندھی بارش میں سارا دن پیدل چل کر سامان بیچنا کوئی آسان کام نہیں یہ تو وہی بہتر جانتے ہیں جو اس دوزخ کا ایندھن ہیں سکندر مجھے اکثر کہا کرتا ہے بائو جی !مہنگائی نے لک توڑ کر رکھ دیاہے بچت کرنے کی کوشش کرتا ہوں لیکن پوری ہی نہیں پڑتی پیسہ پس انداز ہوتا ہی نہیں۔
سکندر جیسے ان گنت کردار ہمارے آس پاس بکھرے پڑے ہیں ان کی فیملی کے گھریلوحالات، خوراک کی کمی ،بیماری میں بھی میڈیکل سٹور سے کوئی چھوٹی موٹی دوا لے کر وقت کو دھکا دینا معمول کی بات ہے جہاں دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوں وہاں جوان ہوتی بیٹیاں ،ہروقت ڈرے ڈرے سہمے سہمے بچے اورشادی کی آس میں بوڑھی ہوتی بہنیں ایک اذیت سے کم نہیں ہیں۔۔۔عید، شب برأت کی آمد آمد پر خوشیاںلوگوںکے چہروں سے پھوٹتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں لیکن سکندر جیسے غریبوں کے گھروںمیں ایک ماتم کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے بچے پہننے کونئے کپڑے اور خرچہ مانگتے ہیں لیکن ڈانٹ ،ڈپٹ،پھٹکار سننے کو ملتی ہے۔۔۔سکندر جیسے لوگوںکی تعداد۔ سینکڑوں، ہزاروں نہیں کروڑوں میں ہے جو ساری زندگی دائرے میں سفر کرتے گذار دیتے ہیں اورغربت کو اپنی بدنصیبی سمجھ کراپنے حالات بدلنے کی بھی کوئی کوشش نہیں کرتے۔
OOOمیری ایک اورشخص مراد سے بھی علیک سلیک ہے وہ بھی گلیوںمیں پھیری لگاکر فروٹ بیچتا تھا میں نے جب پہلے روزاس سے آم خریدے وہ پھلوںکا ٹوکرہ سرپر اٹھائے آوازیں لگاتا پھرتا تھا۔۔۔ چند ماہ بعد وہ سائیکل پر خربوزے فروخت کرتا نظر آیا کئی بار وہ سائیکل کو دیوار سے ٹیک لگا کر گھنٹہ آدھ گھنٹہ بیٹھ کر سستانے لگتا ایک سال بعد مراد فروٹ کی ریڑھی دھکیلتاگلی محلوںمیں صدائیں لگارہا تھا اب اس کا حلیہ روایتی پھل فروش جیسا نہیں تھاگفتگو بھی سلجھی کررہا تھا میں جب بھی اسے دیکھتا وہ مجھے ایک نئے رنگ نئے روپ میں نظر آیا محسوس ہوتا جیسے اس نے غربت کے خلاف جنگ جیتنے کا عزم کررکھاہو۔۔۔ اب شہر کے ایک بارونق بازار میں اس کی فروٹ کی شاندار دوکان ہے روزانہ ہزاروں کی سیل ہے اس کی معاونت کیلئے کئی ملازم موجود ہیں اسے ساتھ والی دکان خالی ہونے کاا نتظارہے یہاں وہ اپنے بیٹے کو سبزی کی دکان بناکردینا چاہتاہے۔۔ میں نے کئی بار دل ہی دل میں سکندر اور مراد کا تقابلی جائزہ لیاہے دونوں نے جب عملی زندگی کا آغاز کیا وہ ایک جیسے حالات کا شکار تھے مرادکی ترقی مثالی ہے روپے پیسے میں کھیل رہاہے جبکہ سکندر آج بھی زیرو ہے۔
Pakistan Poverty
دراصل معاشرے میں دو تین چیزیں انتہائی غلط مروج ہو گئی ہیں ان پڑھ لوگوں کی بے سروپا توجیح اور جاہل مولوی کی تفسیر نے اصل اسلامی فلسفے کو الٹا کر ہی رکھ دیا ہے اس میں کوئی شک نہیں اللہ تعالیٰ کی مرضی کے بغیر پتہ بھی نہیں ہل سکتا تو اس کا مطلب یہ لے لیا جائے کہ دنیا میں جتنے اچھے یا برے کام ہورہے ہیں اللہ کی رضامندی سے ہوتے ہیں۔۔۔ جناب یہ ایسے نہیں ہے اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایاہے، عقل ِ سلیم دی،اچھائی برائی کی تمیز عطاکی ہمارے لئے رستے متعین کردئیے اپنی حد کااعلان کرکے فیصلہ دیدیا جو ان کی خلاف ورزی کرے گااس کی سزا یہ ہو گی اس کے باوجود ہم ہر بات اللہ پر ڈال کر خود بری الذمہ ہونے کی شعوری اور لاشعوری کوشش کرتے رہتے ہیں کہ اللہ کو ایسے ہی منظور تھا۔۔۔قادرِ مطلق نے خود فرمایا ہے میں کسی کی محنت رائیگاںنہیں جانے دیتا انسان کو ترقی ، خوشحالی اور بہتر مستقبل کیلئے پلاننگ کرنا پڑتی ہے مثلاً یہ بات اندھا بھی جانتاہے کہ کوئی ان پڑھ افسر نہیں بن سکتا اب ایک شخص تعلیم بھی حاصل نہ کرے۔کسی سے تلمیذکی خواہش نہ ہو دن رات یہی کہنا پھرے میں نے جلد افسر لگ جانا ہے۔لیکن ایسا ہونا عقل سے بعیدہے پھر یہ کہے کہ اللہ کو ایسے ہی منظور تھا یا میری قسمت میں ایسے ہی لکھا تھا اس کی بات کااعتبار کون کرے گا۔
انسان کو اپنے حالات بدلنے کیلئے محنت ،کوشش اورجدوجہدکرناپڑتی ہے اس کے بغیر ترقی کا خواب ۔۔ خواب ہی رہے گا میں اکثر کہتاہوںجو شخص اپنے متعلق کچھ نہیں سو چتا کسی کو کیا پڑی ہے کہ کوئی اس کے بارے سوچتا پھرے۔گھر میں خواتین کھانے کی تیاری میں تمام لوازمات پیاز،ادرک،ٹماٹر،ہری مرچ، دھنیا،مصالحہ کا خیال رکھتی ہیں پھر بھی کئی مرتبہ کھانے والے کہتے ہیں مزا نہیں آیا۔۔ اور جو اپنے مستقبل کیلئے کچھ نہیں سوچتے منصوبہ بندی ،نہ حکمت ِ عملی اور نہ کسی قسم کی تیاری۔۔۔انہیں زندگی کا مزا کیسے آئے گا۔۔۔دنیا میں بڑے سے بڑا مسئلہ انسان کے سامنے کچھ نہیں ۔انسان کے عزم کے آگے زمین اور آسمان تسخیر ہوئے جاتے ہیں۔۔اب تو اس بات پربھی حیرت نہیں ہوتی دنیا نے سمندرمیں درجنوں منزلہ بلڈنگیں بنا ڈالی ہیں۔۔یہ بھی عجوبہ نہیں چاند اور مریخ میں لوگ سیرکیلئے جایا کریں گے۔۔۔صدیوں پہلے ایران کے فرہاد نے صرف لکڑی تراشنے والے تیشے سے پہاڑکا سینہ چیرکر سڑک بناڈالی تھی۔۔ منشیات کی دلدل میں دھنسا چین جیساملک اب دنیا میںایک ایسی سچائی ہے کہ جاپانی کمپنیاں بھی وہاں کر اپنی صنعتیں لگانے اورکاروبارکرنے پرمجبورہوگئی ہیں، بنگلہ دیش بنے صرف چاردہائیں ہوئی ہیں لیکن پاکستان کے سینکڑوں صنعتکار اور سرمایہ دار وہاں کامیابی سے کاروبار کر رہے ہیں۔
دراصل انسان کی الوالعزمی کے سامنے ہر چیز ہیچ ہے یہ ایک حقیقت بڑی واضح ہے آپ زندگی سے پیار کرنا شروع کریں آپ کو ہر چیزپیاری لگنے لگے گی یاد رکھیں آج کے نفسا نفسی کے دورمیں کوئی کسی کے متعلق نہیں سوچتا آپ نے اپنے بارے سوچناہے تو بات بنے گی آپ کے حالات بہترہونا شروع ہو جائیں گے۔۔۔ہر وقت لوگوں سے شکوے شکایات کوئی اچھا عمل نہیں۔حالات کا رونا رونے کی بجائے عملی طورپر کچھ کرگذریں پہلا قدم یہ ہے کہ آپ کے جو بھی وسائل ہیں اس میں سے کچھ نہ کچھ بچانے کی عادت اپنائیں بچت اچھی بات ہے لیکن اس سے بھی زیادہ ضروری ہے کہ اپنے وسائل بہتربنانے کی تگ و دو ہمیشہ کرتے رہیں وسائل میں اضافہ ہو گا تو معاشی حالت او رمعاشرتی حالات بہتر ہونے لگیں گے وسائل بڑھانے کیلئے کچھ نہ کچھ پلاننگ ناگزیر ہے۔ کو لہو کے بیل کی طرح دن رات دائرے میںسفر کرنے سے کبھی ترقی ممکن نہیںانسان کو ترقی، خوشحالی اور بہتر مستقبل کیلئے پلاننگ کرنا پڑتی ہے جس دن آپ نے اپنے ماحول کو بدلنے کیلئے سوچنا شروع کیا دل کے کسی نہ کسی کونے سے یہ صدا دل و دماغ کو جھنجھوڑ کررکھ دے گی کہ دائرے میںسفر کرنے والوںکی کوئی منزل نہیں ہوتی۔