وزیراعظم عمران خان اپنی کتاب،، میں اور میرا پاکستان، ،میں اپنا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ 1984 میں وفات سے قبل میری ماں اذیت کے دن جیتی رہیں۔میں ڈاکٹرسے مشورہ کرنے ایک دن میوہسپتال گیا۔میں کمرہ انتظار میں تھا۔جب ایک بوڑھاآدمی اندرداخل ہوا۔اس کے چہرے پربہت بے چینی تھی۔تکلیف سے ستاہواچہرہ،یہ تاثرمیرے لئے عجیب بہرحال نہ تھا۔پچھلے کئی ماہ سے میرے والد،میری بہنیں اورخودمیں اسی حال سے دوچارتھے۔بوڑھے آدمی کے ہاتھ میں کاعذکاایک ٹکڑاتھااوردوسرے میں کچھ دوائیں۔چونکہ وہ خودپڑھ نہ سکتاتھالہٰذااس نے سب چیزیں ڈاکٹرکے نائب کوتھمادیں کہ جانچ لے۔اسے بتایاگیا کہ ایک دواکم ہے۔”کتنے میں آئے گی۔؟”رنجیدہ آدمی نے پوچھا۔قیمت بتائی گئی تواداس چہرے پر مایوسی اورناامیدی گہری ہوگئی۔کچھ کہے بغیروہ مڑااورباہرنکل گیا۔میں نے پوچھاکہ مسئلہ کیاہے۔؟بتایاگیاکہ نوشہرہ کایہ پشتون بزرگ اپنے کینسرمیں مبتلابھائی کویہاں علاج کے لئے لایاہے۔ہسپتال میں کوئی بسترخالی نہیں ۔اس لئے برآمدے میں پڑاہے۔بوڑھاقریب ہی ایک زیرتعمیرعمارت میں محنت مزدوری کرتاہے اورباقی وقت اپنے بھائی کی دیکھ بھال ۔میوہسپتال میں علاج مفت ہوناچاہیئے کہ سرکاری ہسپتال ہے مگرمریضوں کودوائیں اکثراپنی جیب سے خریدناپڑتی ہیں ۔
عمران خان آگے مزیدلکھتے ہیں کہ ایک میں اورمیراخاندان تھا۔تمام تروسائل بروئے کارلانے کے باوجودہم پریشان کن کیفیت سے دوچارتھے۔پھرمیں مسلسل اسی ایک بات پرسوچتارہا ۔اس غریب آدمی پرکیاگزررہی ہوگی ۔میں ایک طرف،،میں اورمیراپاکستان،،میں وزیراعظم عمران خان کی آنکھوں کے سامنے ایک غریب کے ساتھ ہونے والا یہ واقعہ پڑھتاہوں اوردوسری طرف جب اسی عمران خان کی حکمرانی میں آج نہ صرف لاہورکے اس میوہسپتال بلکہ لاہورسے کراچی،کوئٹہ سے گلگت،پشاورسے سوات اورکاغان سے چترال تک پورے ملک کے سرکاری ہسپتالوں کی 1984سے بھی بدسے بدترحالات اورانتظامات کودیکھتاہوں تومیرے دل کی دھڑکنیں تیزاورہاتھ کانپنے لگتے ہیں۔سونے کے چمچے منہ میں لیکرپیداہونے والے تو غریبوں کادکھ اوردردکیاجانیں۔۔؟سابق وزیراعظم نوازشریف اورآصف علی زرداری جیسے شریفوں۔۔زرداریوں۔۔نوابوں۔۔چوہدریوں۔۔رئیسوں اورخانوں کوکیاپتہ۔۔؟کہ اس ملک میں غریبوں پرکیاگزرتی ہے۔جن کااپناعلاج امریکہ،برطانیہ اورعرب ممالک میں ہو۔انہیں تویہ بھی معلوم نہیں کہ اس ملک میں سرکاری ہسپتال بھی کہیں ہے یانہیں۔لیکن وزیراعظم عمران خان کی طرح جن کاان ہسپتالوں سے واسطہ پڑتاہے ان کواچھی طرح اندازہ اوربخوبی علم ہے کہ ان ہسپتالوں میں غریب عوام کے زخموں پرمرہم رکھنے کے لئے کیا ہے۔۔؟یاان ہسپتالوں میں غریبوں کے ساتھ کیاکچھ ہوتاہے۔۔؟
نوازشریف،پرویزمشرف اورآصف علی زرداری جیسے زرداریوں،شریفوں،چوہدریوں،نوابوں،رئیسوں اورخانوں کاتوبلڈپریشربھی وی آئی پی معیارکے نیشنل اورانٹرنیشنل ہسپتالوں میں چیک ہوتاہے۔ایسے بے چاروں کاسرکاری ہسپتالوں سے کیالینادینا۔ نوازشریف اورآصف علی زرداری نے اگراپنے ادوارمیں ان سرکاری ہسپتالوں کی طرف کوئی توجہ نہیں دی تواس میں ان کاکوئی قصوربھی نہیں ۔کیونکہ یہ بادشاہ لوگ توکبھی ان ہسپتالوں میں گئے نہیں اس لئے انہیں کیاپتہ۔۔؟کہ میوہسپتال میں غریبوں کے ساتھ کیاہوتاہے۔۔؟یاپشاورکے لیڈی ریڈنگ یاایبٹ آبادکے ایوب میڈیکل کمپلیکس میں علاج معالجے کے لئے آنے والے غریب کس کرب اوراذیت سے گزرتے ہیں لیکن وزیراعظم عمران خان کوتویہ سب پہلے سے پتہ تھا۔ان پرخودگزری یاان کی آنکھوں کے سامنے اس پشتون کی طرح بہت سوں پرگزری۔اس کے باوجود عمران خان کاوزیراعظم بنتے ہی سرکاری ہسپتالوں کوتجربہ گاہ اورتماش گاہ بناناسمجھ سے بالاترہے۔چاہئے تویہ تھاکہ اقتدارمیں آتے ہی وزیراعظم عمران خان1984 میں والدہ کی بیماری کے دوران سرکاری ہسپتالوں میں اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعات ،حادثات اورحالات کوسامنے رکھتے ہوئے ان ہسپتالوں میں ایسے اصلاحات لاتے کہ ان ہسپتالوں میں پھرکسی پشتون،پنجابی،سندھی اوربلوچی کواس پشتون کی طرح اذیت،پریشانی اورکسی مشکل کاپھرکوئی سامنانہ کرناپڑتا۔مگرافسوس عمران خان نے اقتداراورحکومت ہاتھ لگنے کے بعداصلاح کی بجائے تباہی کاپہلاوارہی ان سرکاری ہسپتالوں پرکیا۔ماناکہ میوہسپتال سمیت پورے ملک میں ان سرکاری ہسپتالوں کی حالت پہلے سے ہی خراب تھی۔
مہنگے ٹیسٹوں کے ساتھ مہنگی ادویات کے لئے بھی غریبوں کوباہردوڑایاجاتاتھا۔مگرانتہائی معذرت کے ساتھ اتنی بھی خراب نہیں تھی جتنی آج ہے۔ عمران خان کی اس حکمرانی میں آج سرکاری ہسپتالوں کاجوحال ہے ایساحال توان ہسپتالوں کا1984میں بھی نہیں ہوگا۔نوازشریف،پرویزمشرف اورآصف علی زرداری جیسے امیروں اورکبیروں کی طرح اگرعمران خان کابھی ان سرکاری ہسپتالوں سے کوئی واسطہ نہ پڑتا۔توواللہ ہم ان گنجوں شنجوں کی طرح کپتان سے بھی ہسپتالوں اورطبی سہولیات کے بارے میں کوئی گلہ نہ کرتے مگرافسوس ہمیںیہ ہے کہ ایک بندہ اپنی آنکھوں سے ایسے حالات دیکھیں۔پھربھی اختیارملنے کے بعدوہ ایسے حالات پر آنکھیں بندکرکے چین کی نیندسوئیں۔ہمارے نزدیک ایسے نام نہادغم خواروں کوپھرمفت میںغریبوں سے ہمدردی کاچورن بیچنے کاکوئی حق اورتک نہیں بنتا۔میوہسپتال میں بھائی کے علاج کے لئے دربدرپھرنے والے پشتون کے آنسواگرعمران خان کے دل ودماغ پراس قدراثرانداز ہوگئے تھے کہ ،،میں اورمیراپاکستان،، کی کتاب بھی ان انسوئوں سے ترہوئے بغیرنہیں رہ سکی۔ توپھروزیراعظم بننے کے بعدعمران خان کوکم ازکم اس غریب پشتون کے ان بہتے آنسوئوں کی لاج تو ضروررکھنی چاہیئے تھی۔عمران خان کی حکمرانی سے پہلے سرکاری ہسپتالوں کے اندرپھربھی غریبوں کوکچھ نہ کچھ مل جاتاتھالیکن جب سے اس ملک میں خان کی ،،کپتانی اورحکمرانی،، کی خوشبوآنی شروع ہوئی ہے اس کے بعدسے سرکاری ہسپتال بھی غریبوں کے لئے بیگانے بیگانے سے بن گئے ہیں۔
پہلے چوراورڈاکوئوں کی حکمرانی میں ملک کے اندرنہ صرف کینسرکے مریضوں بلکہ ان سرکاری ہسپتالوں میں ایمرجنسی وداخل مریضوںکے ساتھ غریب ومستحق بیماروںکوبھی زکوٰة فنڈسے کچھ نہ کچھ کرکے مفت ادویات ملتی تھیں لیکن جب سے اس ملک میں غریبوں کے غم،دکھ اوردردمیں آنسوبہانے والے اس ایماندارعمران خان کی حکومت آئی ہے یہ سلسلے بھی تقریباًختم ہوکررہ گئے ہیں۔ایم ٹی آئی کے نام پرسرکاری ہسپتالوں کے ساتھ جوکھیلواڑکھیلاگیاہے وہ انتہائی خطرناک ہے۔حکومت کوپی آئی اے،سٹیل ملز،ہسپتال ،سکول اورکالجزسمیت دیگرسرکاری ادارے بیجنے کا توبہت شوق ہے لیکن وزیراعظم عمران خان کوایک بات یادرکھنی چاہیے کہ ان سرکاری ہسپتالوں کی یہ تباہی اگرنہ روکی گئی توپھر21کروڑعوام میں غربت کی لکیرسے نیچے زندگی گزارنے والے لاکھوں وکروڑوں غریب اورمجبوراس غریب پشتون کی طرح اپنے کسی بھائی۔۔بہن۔۔بیٹے۔۔بیٹی یاماں اورباپ میں سے کسی کے علاج کے لئے ہسپتالوں کی بجائے چوکوں اورچوراہوں میں پاگلوں کی طرح دربدرپھرتے دکھائی دیں گے۔دکھ اوردردکاجولمحہ،وقت اورموقع دل ودماغ پرنقش ہوتاہے وہ پھرمرنے تک یادرہتاہے۔میوہسپتال کاوہ منظریقینناًآج بھی وزیراعظم کے سامنے ہوگا۔اگرنہیں ۔توکپتان کواپنی حکمرانی میں کم ازکم ایک باراپنی کتاب کامطالعہ ضرورکرناچاہئے۔ہم مانتے ہیں کہ کپتان بدل بہت بدل گئے ہیں لیکن نہ غریب بدلے ہیں اورنہ ہی کپتان کی کتاب کے وہ تاریخی الفاظ کچھ بدلے ہیں۔اس ملک میں آج بھی غریبوں کی حالت 1984والی حالت سے کچھ مختلف نہیں۔صحت،تعلیم،روزگاراوردیگربنیادی ضروریات وسہولیات کے لئے اس ملک میں آج بھی غریب سڑکوں پرمارے مارے پھررہے ہیں۔آج اس ملک میںکپتان کی حکومت ہے۔اب بھی اگرعمران خان اپنے جیسے ان غریبوں کے لئے کچھ نہیں کرسکے توپھرکب کریں گے۔۔؟اقتدارسے باہرتوپوری دنیا غریبوں کے لئے لڑتی اورمرتی ہے۔