کائنات نظام قدرت کے مطابق اپنے چکر پورے کر رہی تھی ۔دن نکلتا ،سورج اپنی تمام تر توانائیوں کے ساتھ طلوع ہوتا،لوگ اپنے کام کاج میں مصروف ہو جاتے،بوڑھے لوگ سورج کی جانب دیکھتے ہوئے وقت کا اندازہ کرتے،شفق پھوٹتی سورج غروب ہو جاتا ۔شام کا اندھیرا ہر سو پھیلتے ہی لوگ اپنے گھروں میں مقید ہو جاتے،رات کو چاند نکلتا اس کے ساتھ تاروں کی بارات ہوتی،چاند سے لوگ رات کے پہروں کا اندازہ کرتے اور تارے رات کو چلنے والے مسافروں کی رہنمائی کرتے۔ویلم گلبرٹ نے جب بجلی ایجاد کی ہو گی اس کو اس بات کا قطعاً احساس نہیں ہو گا کہ وہ کس عفریت کو ایجاد/آزاد کرنے والا ہے۔بجلی ملکوں ،ملکوں پھرتی پاکستان میں بھی آئی اور یہاں کے لوگ بھی اس کے جلوہ حسن سے متاثر ہوئے بنا نہ رہ سکے۔دن تو روشن ہوتا ہی تھا اب راتیں بھی روشن ہونے لگیں۔رات کو کتوں اور اندھیرے کے خوف سے سفر نہ کرنے والے اب راتوں کو بھی سفر کرنے لگے۔
لوگوں کی زندگی حسین اور رنگیں ہو گئی۔جو اس سے مستفید تھے وہ خوش تھے جو اس کے جلوہ سے محروم تھے وہ اس کے دیدار کے لئے واویلا کر رہے تھے ۔پاکستان میں بجلی فراہم کرنے والے ادارے کو واپڈا کا نام دیا گیا۔جسے یار دوست ”پا پھڈا” کے نام سے بھی یاد کرتے رہے۔جوں جوں لوگ بجلی کے دام فریب میں مبتلا ہوتے گئے وہ سہل ہو گئے ۔ہاتھ والی ”پکھی” کی ہوا کو جنت کی ہوا کہنے والوں کو پنکھے کی ہوا بھی جہنم کی سزا لگنے لگی۔پن بجلی سب سے سستی ٹھہری اس کے لئے ڈیموں کی تعمیر شروع ہوئی۔ڈیموں سے دو مقاصد حاصل ہوئے بجلی بھی حاصل ہوئی اور آبپاشی کے لئے پانی بھی۔مگر زمیندار اس پانی کو پسند نہیں کرتے تھے ان کے خیال میں جب دھی سے مکھن نکال لیا جاتا ہے تو اس دھی کے پلے کیا رہ جاتا ہے۔
پانی میں بجلی ہی طاقت ہے جب بجلی ہی نکل گئی تو پھوکے پانی سے فصلیں کیا خاک پھلیں پھولیں گی۔پانی سے متعلقہ کچھ معاہدے بھارت سے بھی ہوئے جن سے ہندو بنیے فائدے میں رہے۔پنجاب جو کبھی پانچ دریاوں کی سرزمین تھا انڈیا کی کامیاب حکمت عملی خدا نہ کرے اس کو ”گم آب”نہ بنا دے۔راوی جو کبھی لاہور کو سیراب کرتا ہو ا گزرتا تھا اب بوڑھے راوی میں تبدیل ہو گیا ہے ۔اس کی وہ شان و شوکت ۔جاہ و جلال جو مغلیہ دور میں تھا اب کہاں ۔جب اس میں شہزادیاںاشنان کرتی تھیں۔اب تو وہ صرف داستانوں میں زندہ ہے۔اب اہلیان لاہور کا گندہ پانی ہے اور گھڑی گھڑی موت کو یاد کرتا بوڑھا راوی جورات کے سناٹے میں اپنی جوانی کی کہانیاں سناتا ہے ۔کبھی اس میں مچھلیاں رقص کرتی تھیں۔اس کے کنارے بارہ دری پر پرندوں کی چہکاریں تھیںلوگ دور دور سے اس کی خوبصورتی کا نظارہ کرنے آتے تھے۔اب وہی راوی ہے پرندوں کی چہکاریں دم توڑ چکی ہے۔
Ravens
مچھلیوں کے رقص کی جگہ اب کچھوے،کتے اور کوووں کے غوطے ہیں۔راوی اب صدقہ گاہ میں تبدیل ہو چکی ہے۔اب تو صرف وہ ایسی آبی گزرگاہ ہے۔جو بوقت سیلاب بھارت کو بچانے اور پاکستان کے دیہات کو ڈبونے کے کام آتی ہے۔بجلی عوام پر گرنے لگی آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک نے اس ملک میں پنجے گاڑ دیئے۔عوام نت نئے ٹیکس کے ذائقوں سے روشناس ہوئی۔واپڈا لوگوں کی پھرکیاں گھمانے لگا لوگ واپڈا کی پھرکی گھمانے میں مصروف تھے۔ایک صاحب نے میٹر ریڈر سے مک مکا کرلیا ۔میٹر ریڈنگ سے ایک آدھ دن پہلے میٹر کو کھول کر پھرکی گھما کر اس کی ریڈنگ کو پیچھے کر دیا جاتا۔اس طرح کام چلتا رہا ۔ایک مہینے میٹر ریڈر صاحب تشریف نہ لائے۔ان صاحب نے سوچا اگر میٹر کی پھرکی نہ گھمائی تو پھر پکڑے جائیں گے۔انہوں نے میٹر کو خود ہی کھول لیا اور پھرکیاں گھما کر اپنی تسلی کی اور میٹر کو پھر بند کر دیا۔
میٹر ریڈنگ ہوئی ۔آنے والے بل کے ساتھ واپڈاوالوں کی طرف سے ایک خط بھی تھا جس میںان کا شکریہ ادا کیا گیا تھا کہ انہوں نے واپڈا کو 2000/- روپے کی بجلی فراہم کی۔کھپت بڑھتی گئی۔بجلی گھٹتی گئی۔نئے ڈیموں کی تعمیر میں سیاسی اور سماجی مسائل سامنے آئے۔بجلی پانی کی طاقت سے آزاد ہوئی،بجلی بنانے کے نت نئے ذریعے متعارف کروائے گئے۔اور اس کے ساتھ ہی پاکستان بجلی بنانے والے بین الاقوامی ”چمگادڑوں”کے لئے جنت کی حثیت اختیار کر گیا ۔جنہوں نے جب چاہا جیسے چاہا ناقابل فہم ٹیکسوں کی بھر مار کر دی۔اس بات کا بین الاقوامی سطح پر اعتراف کیا گیا کہ پاکستانی عوام میں برداشت بہت ہے ان پر جو مرضی لاد دو چپ چاپ اٹھا لیتے ہیں۔واپڈا کے نام میں کوئی چارم نہیں رہا۔
Load Shedding
عوام تڑپ رہی ہے سسک نہیں رہی۔اس کا ایسا نام ہو جو اس کے کام کی غمازی کرے۔اور پھر ”دیسی اورعالمی چمگادڑوں” نے اس کا نام ”سسکو” تجویزکیا ۔بجلی دن بدن مہنگی اور نایاب ہوتی جارہی ہے۔عوام منہ مانگے بل دینے کے لئے تیار ہیں اس کے باوجود پورا پاکستان لوڈشیڈنگ کے سیاہ ترین دور سے گزر رہا ہے۔۔کراچی کے حالات اس وقت بدترین ہیں۔آئندہ دنوں میںکے ای ایس سی کی اشتہاری مہم کچھ ایسی ہو سکتی ہے۔یاد رکھیے! بجلی ایک قومی امانت ہے ۔اس میں خیانت مت کریں۔صرف اور صرف بوقت ضرورت بجلی جلائیے۔جب آپ کو ماچس اور موم بتی کی تلاش ہو۔بھارت اپنے ساٹھ سالہ دور دور میں اپنے بہت سے بھیانک عزائم کو حاصل کر چکا ہے۔ بلکہ اس کے بارے میں یہ بات مشہور ہوتی جا رہی ہے کہ جہاں پانی کے چند گھونٹ دیکھتا ہے وہیں ڈیم بنانے کے بارے میںرپورٹ طلب کر لیتا ہے۔
ماہرین اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ مستقبل میں جنگیں پانی کے لئے لڑی جائیں گی۔مگر نہ جانے کیوں ہمارے کرتاووئں دھرتاووئں نے چپ سادھ رکھی ہے۔خدا نہ کرئے ایسا ہوکہ مستقبل کا کوئی سیاح پاکستان آئے۔اور ہوائی یاترا کے دوران پاکستانی گائیڈ زمین کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہے”یہ جو آپ زمین پر بنی ہوئی لہریں سی دیکھ رہے ہیں یہ کبھی دریا تھے اور ان میں پانی ٹھاٹھیں مارتا ہوا گزرتا تھا ۔اور یہ جو آپ بلندوبال ا ٹاور اور تاریں دیکھ رہے ہیں ان میںسے کبھی کڑکتی ہوئی بجلیاں گزرتی تھیں۔