تحریر: فہیم افضل کہتے ہیں جذبہ سچاہو تو کام ہمیشہ ہی اچھا ہوتا ہے ایک کہاوت بھی ہے ” نیتوں کو بھاگ ” یعنی نیت اچھی ہو تو مراد بھی اچھی ہی ملتی ہے اگر نیت میں فتور ہو تو حاصل بھی کچھ ٹھیک نہیں رہتاپاکستان میں موجود اوکاڑہ شہر سے تقریباً 17 کلومیٹر پر واقع دو نہروں کے سنگم میں بسا ہوا شہر رینالہ خورد تاریخی اعتبار سے ضلع اوکاڑہ میں نہایت اہمیت کا متحمل ہے کیونکہ بات سیاست کی ہو یا اعلیٰ عہدوں پر فائز افسران کی رینا لہ خورد کی دھرتی نے ایسے سپوت پیدا کئے ہیں جنہوں نے اپنی قابلیت کے دم پر رینا لہ خورد کا نام ملک بھر میں روشن کیا ان میں خاصی شہر ت کے متحمل نام سابق وزیر مملکت سید صمام شاہ بخاری ، سابق وزیر تعلیم سید سجاد حیدر مرحوم،صحافتی حلقوں میں وقیع نام سیدہ میمنت جگنو محسن سر فہرست ہیں امن و امان اور باہمی ہم آہنگی کے حوالہ سے بات کی جائے توجمہور کا ایک بے نظیر امتزاج اس شہر میں دیکھنے کو ملتا ہے آپسی اختلافات چاہے کتنے بھی سنگین کیوں نہ ہوں یہاں لوگ خوشی اور مواقعوں پر ایک دوسرے سے سکھ دکھ بانٹتے نظر آئیں گے۔
رات کے وقت اکثر بزرگوں اور جوانوں کی دلفریب بیٹھک نظر آئے گی جہاں تاریخ ، تہذیب ، سیاست ،سماجت ، اسلامیت ، انسانیت اور پاکستانیت جیسے موضوعات پر وقیع تجزیہ نگار محافل کو رونق بخشتے نظر آئیں گے گو ستاروں کی اس انجمن کو دیکھ یوں لگتا ہے جیسے آج بھی ہمارے اندر اقدار ختم نہ ہوئی ہیں اکثر بزرگ اپنی سوانح حیات کے روح افزاء قصوں ، واقعات سے ایسی دانشوری کی باتیں سکھا جاتے ہیں جو ہمیں کتب میں سالوں سر کھپانے سے نہیں مل سکتیں راقم الحروف بھی ان افراد میں شامل ہے جو بزرگوں ، نوجوانوں کے نصیحت آمیز محفل میں شرکت کرتا ہے کبھی تو طالب علم بنے مکتب اور مدرس کی شریں گفتگو سے محظوظ ہوتا ہے بعض اوقات علم و حکمت کے ایسے گوہر میسر آتے ہیں جو زندگی میں پیش آنے والے واقعات کا ایک مجرب حل فراہم کر دیتے ہیں گویا یوں کہہ لیجئے یہ چوراہوں پر رونما ہونے والے علمی و حکمتی مباحثے شعور کی لازوال دولت سے مستفید کرتے ہیں جو انسان کیلئے آئندہ زندگی میں مشعلِ راہ بن جاتے ہیں اور اس روشنی سے انسان اپنی زندگی کے تاریک پہلومنور کر لیتا ہے اب ان بزرگوں میں قابل ذکر اور معروف نام تیمور خان بھٹی صاحب کاہے جو ادب میں حال تعینات چیف سیکرٹری پنجاب کیپٹن ریٹائرڈ زاہدسعید کے والد پنجابی نظریاتی شاعر عبد اللہ شاکر کے شاگرد ہیں تیمور بھٹی صاحب اب تقریباً عمر کے ساٹھویں سال میں ہیں جو اپنے تجربے و علم اور حکمت سے گیان نوجوان نسل میں بانٹ رہے ہیں۔
Punjabi Literature
پنجابی ادب ،اور تاریخ پر ایسا عبور رکھتے ہیں کہ سامع ستائش اور رشک کئے بغیر رہ نہیں سکتا محافل سخن ہائے میں مزاح کی شوخیاں بکھیر کرمحفل میں جان ڈالنا تو ان کا طرہ امتیاز ہے خیر اب ہماری دور حاضر کی تعلیم معیار بھی تو وہ نہیں رہا ہمارے طلباء صرف اور صرف کتابی کیڑے بن چکے ہیں تہذیب ،ثقافت تو یوں سمجھ لیجیئے کہ سامری کے منتر ہو گئے ہیں ہماری تہذیب میں پہنائو ، بنائو ، انداز گفتگو ، طرز بیاں ،زبان و تمدن شاید ناپید ہو چکا ہے ہر کوئی کاٹھا انگریز بننے کی جستجو میں لگا ہوا ہے جو رفتہ رفتہ اپنی تہذیب سے بہت دور نکلتا جا رہا ہے اغیار کے رنگ نے مشرق کے اس انسان کو بے رنگ بنا دیا ہے جو دل میں قدورتیں سمائے معاشرے میں نفرت کے انگار سلگھا رہا ہے خیر یہ باتیں تو اب عام ہیں مگر پس پردہ ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ ہم آج احمقوں کی جنت میں رہ رہے ہیں ہمارے بنیادی حقوق پر یہاں لوگ سیاست کر کے ہم پر ہی احسان چڑھا دیتے ہیں اور ہم ان ہی حقوق کے میسر آنے پر ان کی جے جے کار کرتے ہیں خیر میں بات کر رہا تھا رینا لہ خورد کی تو گذشتہ چند سالوں سے جب ملکی سطح پر حکومت تبدیل ہوئی تو اسی کے ساتھ ہی انتظامیہ کی پالیسیاں بھی لچک کھانے لگیں پہلے پہل تو سائیلین کی اکا دکا شکایات کا ازالہ ہو جاتا تھا۔
مگر جب سے پناہ لینے کیلئے کھچاروں کا استعمال ہونے لگا ہے افسران بھی بے خوف و خطر ہو گئے ہیں یا یوں بھی کہہ لیا جائے کہ شتر بے مہار ہو گئے ہیں تو غلط نہ ہو گا اوپر حکمران اپنی حاکمیت کے بھرپور مزے لوٹ رہے ہیں جبکہ یہاں عوام کے نام نہاد خادم اپنی حاکمیت بنائے بیٹھے ہیں قانون تو یوں لگ رہا ہے جیسے موجو د ہی نہ ہے افسر شاہی جیسے چاہتا ہے جہاں چاہتا ہے اپنے من کی مرضی کرتا ہے گویا حاکمیت کی گنگا میں کوئی حصہ ان کی ملکیت بنا دیا گیا ہے اپنے کرتوت چھپانے کا بہترین ذریعہ آجکل لمبی انکوائریاں ہیں جیسے جیسے معاملات کو طو ل ملتا ہے پریشر کم ہوجاتا ہے اور با لا خر گیس نکلے غبارے کی طرح رہ جاتا ہے کچھ یہی حال یہاں ایک دل سوز واقع کے رونما ہونے کے بعد ہوا ایک غریب کے مکان کی چھت گر گئی جسکے ملبے تلے آکر تقریبا ً 5 افراد ہلاک ہو گئے انتظامیہ روایتاً حرکت میں آئی اور آفت زدہ مکان اور اس سے محلقہ محنت کش کا مکان سر بمہر کر دیا غریب گھر سے محروم ہوئے اور سڑکوں پر آگئے گلیوں کی خاک شاید ان کے مقدر میں لکھی جا چکی تھی اب یہ غریب قدرت سے شکوہ کرتا یا پھر ان قدرت رکھنے والوں صاحب قدر افراد کے سامنے اپنی بربادی کا نوحہ کرتا خبر شہر میں پھیل گئی الیکڑانک میڈیا ،پرنٹ میڈیا پر خبریں شائع ہوئیں وہی پرانا دستور ،پرانی عادات ، انکوائری وغیرہ وغیرہ ابھی تقریباً دو ہفتے سے زائد وقت گز ر چکا ہے مگر ہماری قابل انتظامیہ ابھی تک تحقیقات کے گرد ہی گھوم رہی ہے۔
Renala Khurd
متاثرین کی مدد یہی شہر کے درد دل رکھنے والے افراد کر رہے ہیں حکومتی سطح پر امداد کے تو متاثرین ابھی منتظر ہیں راقم کے علم میں جب سے معاملہ آیا تو فوری طور پر معاملہ ڈی سی او اوکاڑہ سقراط امان رانا کے علم میں لایا گیا جنہوں نے دو دن کے اندر معاملے کی انکوائری مکمل کر کے اسسٹنٹ کمشنر رینا لہ خورد کنول نظام بھٹو کو مکانات ڈی سیل کرنے کا حکم دیا اب ناجانے کیا ماجرا ہے ؟ کیا روکاوٹ ہے ؟کہ محترمہ تقریباً دو ہفتے گز ر جانے کے باوجود بھی مکانات کو ڈی سیل نہ کر رہی ہیں محترمہ بلاشبہ ایک پڑھی لکھی رحم دل خاتون ہیں مگر سمجھ سے بالا تر ہے کہ یہاں ان کی انسانیت ان کو کیوں نہ جھنجھوڑ رہی ہے آخر کونسے سے محرکات ہیں جو اس غیریب کی اجڑی بستی کے بسنے میں حائل روکاوٹ ہیں بات کریں کارکردگی کی تو اسسٹنٹ کمشنر رینا لہ کی بطور ایڈمنسٹریٹر کارکردگی لائق تحسین نہ ہے قلیل دورانیے میں محترمہ کو عوامی ،وکلا ء یا صحافتی حلقوں کے ساتھ محاذ آراء دیکھا جبکہ ٹی ایم اے کی ناقص کارکردگی کے باوجود کوئی خاطر خواہ ایکشن نہ لینا کئی سوالات کھڑے کرتا رہا شہر میں غیر قانونی تجاوزات ، غیر قانونی ہائوسنگ سکیموں کے تانے بانے مبینہ طور پر پیچ و تاب کھاتے ہوئے اسسٹنٹ کمشنر رینا لہ کنول نظام بھٹو تک پہنچ جاتے ہیں۔
رینا لہ خورد ہائوسنگ سکیم میں نصب واٹر فلٹر یشن پلانٹ متعدد بار خراب ہوا مگر اس بارے میں کوئی تحقیقات نہ کروائی گئیں گویہ مال مفت دل بے رحم کے مزداق جو ہے جیسا ہے کی بنیاد پر چھوڑ دیا گیا اب کوئی سوال کرے تو شامت منتظر ؟ کسی کی بلا سے کہ پرائی بلا اپنے گلے باندھ لے معاملات پر خاموشی ہی اختیار کر لی گئی ابھی اللہ اللہ کر کے واٹر فلٹریشن پلانٹ ٹھیک ہوا گویا انتظامیہ نے حاتم کی گور پر لات مار دی ہو قصہ بیانی اس طرح ہو رہی ہے جیسے کشمیر آزاد کروا لیا گیا ہو بھئی بنیادی سہولیات فراہم کر نا انتظامیہ کی ذمہ داری ہے اگر کوئی کام ٹھیک ہو گیا ہے تو اس پر فخر کیسا بات لمبی ہو جائے گی کہ شب گزر جائے گی درد کی داستان کہتے کہتے میں سیدھا بنیادی نقطے پر آتا ہوں کہ انتظامیہ کے معاملات اپنی جگہ ، اختیارات ، کارعظیم اپنی جگہ مگر احتساب نہ ہونا حقوق سلب کرنے کی روش کو بڑھا دے گا لمحہ فکریہ ہے جس پر وزیر اعلیٰ پنجاب و دیگر ارباب اختیار کو سوچنا ہوگا کوئی ٹھوس فیصلہ لینا ہو گا وگرنہ ایک حکم نامہ جاری کر دیا جائے کہ غریب کو شہر بدر کر دو کہ شور سے کہیں سوئی ہوئی حکومت جا گ نہ جائے۔