شہری خدمات کے محکمہ واسا کا مستقبل؟

Wasa

Wasa

آج سے اڑتیس سال پہلے معرض وجود میں آنے والا ادارہ واسا لاہور شہریوں کو صاف پانی اور سیوریج کی سہولتیں فراہم کرتا ہے۔ صارفین کو بنیادی سہولت فراہم کرنے والا یہ ادارہ 1967ء تک کارپوریشن کا ایک حصہ تھا۔09/03/1967 کو لاہور امپروومنٹ ٹرسٹ (LIT) کے نام پر اس کو کارپوریشن سے علیحدہ کیا گیا۔

لاہور امپروومنٹ ٹرسٹ کی ذمہ داریوں میں شہر کی ترقی کے متعلق تمام تر امور شامل تھے۔ 1975ء میں پنجاب اسمبلی میں منظور کئے گئے قانون کے تحت لاہور امپروومنٹ ٹرسٹ کو ایل ڈی اے کا نام دیدیا گیا۔ بعد ازاں اسی ایکٹ کے تحت نیا محکمہ واٹر اینڈ سینی ٹیشن ایجنسی(واسا) تخلیق کیا گیا۔

اس کی بنیادی ذمہ داری لاہور کے باسیوں کو صاف پانی کی فراہمی اور نکاسئی آب تھی۔ جو کہ وہ اب تک نبھا رہا ہے۔ کنٹونمنٹ ایریا، ماڈل ٹائون، ریلوے کالونیاں، جی اوآرز، پی ڈبلیو ڈی اور نجی رہائشی کالونیاں اس کی عملداری سے باہر تھیں۔ بعد ازاں 2002ء میں جب پرویز مشرف کے دور حکومت میں مقامی حکومتوں کا نظام رائج کیا گیا تو اس کے تحت واسا کی عملداری شہری کے ساتھ ساتھ دیہی علاقوں تک بھی جا پہنچی کیونکہ اس کو ٹائون انتظامیہ کے ماتحت کرتے ہوئے پورے لاہور میں ٹائون سسٹم کا نفاذ کر دیا گیا۔

اسی دور میں ہونے والی قانونی تبدیلیوں کے تحت واسا کو کارپوریشن کیلئے صفائی ٹیکس (سینی ٹیشن فیس) بھی اکٹھی کرنے کی ذمہ داری دے دی گئی جو کہ اب تک واسا کے بلوں میں وصول کی جا رہی ہے اور اس کی ادائیگی واسا کارپوریشن کو ہر ماہ بذریعہ چیک کرتا ہے۔ واسا مالی معاملات کو چلانے کیلئے شہریوں سے پانی کا بل وصول کرتا ہے۔ جو کہ 1992 تک بغیر میٹر اسسمنٹ ریٹ پر جاری کیا جاتا تھااس دور میں ایک بغیر میٹر کنکشن ایک کنال سے کم رقبہ تک جاری کیا جاتا تھا۔

Sewerage System

Sewerage System

ایک کنال سے زیادہ رقبہ پر کنکشن میٹرڈ ہی نصب کیا جاتا۔ 1992 کے بعد محکمہ نے قوانین میں تبدیلی کرتے ہوئے میٹر پالیسی جاری کر دی اور تمام تر کنکشنز میٹرڈ ہی منظور کئے جانے لگے۔ واسا اس کے علاوہ پرائیویٹ کالونیوں سے انفراسٹرکچر چارجز اور سیوریج جبکہ اب ریلوے سے بھی فکس بل وصول کر رہا ہے۔ ان سب کے علاوہ واسا نے کمرشل پراپرٹیوں سے ایکوافر اور سیور چارجز کی وصولی شروع کی جو عدالت عالیہ کے حکم پر بند کر دی گئی اب واسا ذاتی انجیکٹر(ٹیوب ویل) لگانے پر صرف سیوریج بل وصول کرتا ہے جو ٹیوب ویل کی کپیسٹی کے مطابق ہوتا ہے۔ واسا سابق ضلع ناظم میاں عامر محمود کے دور تک اپنے عروج پر تھا اور اس کے تمام تر واجبات کلیئر تھے۔

جبکہ حکومت کی جانب سے بھی ترقیاتی فنڈز کی بڑی تعداد جاری کی جاتی رہی۔ اس دور کے بعد واسا دو بار ٹیرف میں اضافہ کے باوجود نقصان کی طرف تیزی سے جاری ہے۔ 2007-8 میں واسا میں تعینات ہونے والے نئے منیجنگ ڈائریکٹر ڈاکٹر جاوید اقبال کے آنے کے بعد محکمہ کی حالت آئی سی یو میں پڑے مریض کی ہو گئی۔ واسا جو 2000ء تک تمام صوبائی محکموں تو کیا دنیا بھر میں منافع میں جانے والاسینی ٹیشن کا واحد ادارہ تھا اور جس کی سٹڈی کرنے جاپان اور امریکہ تک سے ماہرین آتے رہتے تھے خود بھکاری بن گیا جس کا اب خریدار تو کوئی کیا ہو گا کوئی بھیک دینے کو بھی تیار نہیں۔

پی ایس او، واپڈا، سوئی گیس، ٹیلی فون ،ٹھیکیدار یہاں تک کہ ملازمین کو بھی ادائیگیاں کرنے سے محکمہ قاصر ہو چکا ہے۔ دنیا بھر میں کسی بھی ادارہ کو تباہ کرنے کیلئے اس کا بنیادی سٹرکچر اس کے چھوٹے سٹاف کو فارغ جبکہ بھاری تنخواہوں پر افسران بھرتی کر لئے جاتے ہیں۔ یہی پریکٹس یہاں بھی کی گئی اور سکیل نمبر5تک کے 2300ورک چارج افراد کو سکروٹنی کے نام پر فارغ کر کے ہزاروں گھرانوں کو بیروزگاری کی دلدل میں دھکیل دیا گیااور دوسری طرف ایس ڈی اوز اور دیگر اعلیٰ افسران بھاری مراعات پر بھرتی کر لئے گئے۔

ستم بالائے ستم یہ ہوا کہ واسا کے افسران کو ڈیپوٹیشن پر دیگر محکموں میں بھیج کر ان سے افسران ”درآمد” کئے گئے۔ ان امپورٹڈ افسران کو واسا کی کوئی فکر تھی نہ ہے انہوں سے محکمہ کو مال غنیمت خود کو فاتح اور ملازمین کو مفتوح سمجھ لیا۔ واسا کے آپریشنل سٹاف نے مختلف ٹینڈرز اور ترقیاتی کاموں کی مد میں محکمہ کو اربوں کا چونا لگایا تو ریونیو عملہ نے بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے۔ لاکھوں روپے کے بقایا جات والے بلز بند کر کے نئے جاری کر دیئے گئے یوں مریض کو لگی آکسیجن بھی اتارنے تک کی کوشش کی گئی۔ کمپیوٹر اور اس کے لوازمات کی خریداری میںکرپشن کی اطلاعات ہیں۔ واسا کی تباہی میں سب سے بڑا کردار جنریٹر پالیسی نے ادا کیا اور ایسے پوائنٹس جہاں واپڈا کے ڈبل کنکشن ہیں وہاں پر بھی دو دوجنریٹر رکھ دیئے گئے۔ اور بغیر ایک منٹ بھی چلائے ہزاروں روپے کا ڈیزل روزانہ ”استعمال” کیا جانے لگا۔ جس کی ایک مثال تاجپورہ سب ڈویژن ہے۔ اس سب کے علاوہ جنریٹرز کی خریداری میں بھی بڑے پیمانے پر گھپلوں کی اطلاعات ہیں۔ یہاں تک کہ پرانے (ری کنڈیشنڈ) جنریٹرز کو خرید کرنئی پیکنگ کروا لی گئی جس پر انکوائری جاری ہے۔ کنٹریکٹ پر کی گئی بھرتیوں پر بھی کئی سوالیہ نشانات ہیں۔ بلکہ منیجنگ ڈئریکٹر سے لے کر ڈیٹا نٹری آپریٹر تک واسا افسران کی اربوں روپے کی کرپشن سے متعلق ہائیکورٹ میں دائر ہونے والی رٹ پٹیشن کو عدالت عالیہ نیب کو ریفر بھی کر چکی ہے جس پر تحقیقات جاری ہیں۔

واسا کی نجکاری کیلئے مسلم لیگ (ن) کے ہر دور حکومت میں بڑی تیزی دکھائی گئی اورتمام تر کوششیں بھی کی گئیں مگر یہ بوجوہ محفوظ رہا۔ میاں نوازشریف کے سابق دور حکومت میں تمام تر معاملات طے پانے کے قریب تھے کہ پرویز مشرف نے ایمرجنسی نافذ کردی۔ یوں میاں صاحب کا اقتدار ختم ہو گیا۔ پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے سابق اور موجودہ ادوار میں محکمہ ترکی کو دینے کی کوشش ہوئی جس میں ناکامی پر ترک نجی ٹھیکیدار کو بھی مائل کیا گیا۔ اسی دوران ریونیو علامہ اقبال ٹائون کی بلنگ نجی کمپنی کو ٹھیکہ پر بھی دی گئی مگر یہ تجربہ بھی ناکام رہا۔ اب واسا کی26سب ڈویژنوں کو مزید بڑھاتے ہوئے اسے 38 زونز میں تقسیم کرکے ابتدائی اور تجرباتی طور پر جوہر ٹائون سب ڈویژن کو نجی طور پر چلایا جا رہا ہے۔

کچھ سرکاری ادارے کاروباری اصول نہیں بلکہ پبلک انٹرسٹ (عوامی بہبود) کیلئے ہوتے ہیں جن میں صحت، تعلیم اور ان سب سے پہلے پینے کا صاف پانی کی فراہمی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت شہریوں کو بنیادی سہولت فراہم کرنے والے ادارے کو ویلفیئر کی بنیادوں پر چلائے نہ کہ نجی کمپنی کی تحویل میں دے کر عام عوام پر پانی پینا تو کجا اس کے ادائے حاجت پربھی پابندی لگا دے۔

Mian Mohammad Ashfaq

Mian Mohammad Ashfaq

تحریر : میاں محمد اشفاق