اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) چیف جسٹس پاکستان آصف سعید کھوسہ نے حراستی مراکز سے متعلق کیس کی سماعت میں ریمارکس دیے کہ ایک طرف شہری کے وقار دوسری طرف ریاست کی بقا کا سوال ہے۔
سپریم کورٹ میں فاٹا پاٹا ایکٹ اور حراستی مراکز سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کے سامنے سوال صرف حراستی مراکز کی قانونی حیثیت کا ہے، ایک طرف شہری کے وقار دوسری طرف ریاست کی بقاء کا سوال ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ حراستی مراکز پر عدالت کو ویڈیو دکھانا چاہتا ہوں، فاٹا پاٹا میں دہشتگرد، کالعدم تنظیمیں اور غیر ریاستی عناصر موجود رہے، حراستی مراکز سمیت دیگر نکات پر نیا قانون بنایا جا رہا ہے جو تین سے چار ماہ میں نافذ ہو جائے گا۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ آپ چاہتے ہیں عدالت چار ماہ آئین معطل کر دے؟۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ عدالت سے صرف نئے قانون کی نفاذ تک کی مہلت مانگ رہا ہوں۔
جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ صدر نے قانون فاٹا میں رائج کیا تھا جو اب ختم ہوچکا، فاٹا ختم ہو چکا تو اس میں رائج قانون کیسے برقرار ہے؟۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ فاٹا میں رائج قانون اب صوبائی قوانین بن چکے، جو نیا قانون ڈرافٹ کر رہا ہوں اس میں سب کچھ شامل کیا گیا ہے۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ اٹارنی جنرل کا کام قانون بنانا کب سے ہوگیا؟ ، قانون بنانے کیلئے وزارت قانون موجود ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ حراستی مراکز میں کسی کو تین ماہ رک رکھا جا سکتا ہے۔ اس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ملک کیخلاف سرگرمیوں پر غیر معینہ مدت کیلئے حراست میں رکھا جا سکتا ہے۔
جسٹس فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ اس طرح تو کسی کوبھی ملک مخالف سرگرمیوں کا الزام لگا کر غیر معینہ مدت تک حراست میں رکھا جائے گا، نئے قانون میں کسی کو حراست میں رکھنے پر نظرثانی کا نکتہ بھی نکال دیا گیا ہے۔
جسٹس عمر عطاء بندیال کے استفسار پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ حراستی مراکز میں ایک ہزار کے قریب لوگ ہیں اور خیبر پختون خوا میں اس وقت 2011 کا ایکٹ نافذ ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ حراست پر نظرثانی نہ ہونا 2011 کے قانون میں سقم ہے۔ عدالت نے کیس کی مزیدسماعت کل تک ملتوی کر دی۔