یورپی یونین (جیوڈیسک) یورپی یونین کے رکن ممالک میں سے چند ایک میں نقد رقوم کے بدلے قانونی طور پر مقامی شہریت خریدی جا سکتی ہے۔ لیکن یہ ایک ایسی ’خطرناک پیش رفت‘ ہے، جو متعلقہ ممالک میں عوامیت پسند سیاستدانوں کی مضبوطی کا سبب بن رہی ہے۔
یہ رجحان بالواسطہ طور پر رنگ، نسل اور مذہب کی بنیاد پر تعصب اور اجانب بیزاری کی اس سوچ کے لیے تقویت کا باعث بھی بن رہا ہے، جس کے تحت کسی بھی معاشرے میں اکثریت کی طرف سے اقلیتوں کو سماج کے مرکزی دھارے سے دور رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
اس بارے میں بلغاریہ سے تعلق رکھنے والے ثقافتی عمرانیات کے پروفیسر ایوائلو ڈِٹشیف نے ڈوئچے ویلے کے لیے اپنی ایک خصوصی تحریر میں لکھا ہے کہ یورپی یونین قدیم سلطنت روما کی اس مثال پر عمل پیرا ہے، جس کے تحت اجنبیوں کو مقامی شہریت دی جاتی تھی تاکہ ہمسایہ اقوام کو متاثر کیا جا سکے۔ اس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ یورپی یونین کی طرف سے اس بلاک میں توسیع کے وعدوں کے باعث گزشتہ کئی برسوں سے یونین کی ہمسایہ ریاستوں میں امن و استحکام دیکھنے میں آئے ہیں۔
ماسڑشٹ کے معاہدے کے تحت یورپی یونین کے شہریوں کے لیے ’یورپی شہریت‘ کا نظریہ ایک اچھا نظریہ تھا لیکن اس بلاک کو دھچکا اس کی مشرق کی طرف توسیع کے اس عمل کے دوران لگا جب 2007ء میں رومانیہ اور بلغاریہ جیسے ممالک کو بھی یونین کی رکنیت دے دی گئی۔ اسے قبل یہ بھی ہوا تھا کہ سابق سوویت یونین کی تقسیم کے بعد جرمنی اور یونان نے سابق سوویت یونین کے ایسے لاکھوں شہریوں کو بھی اپنی اپنی شہریت دے دی، جن کے اجداد کا تعلق ان ممالک سے تھا۔
یورپی یونین کے رکن ممالک میں سے پہلے ہنگری اور پھر بلغاریہ نے بھی اپنے ہاں قومیت کی شناخت کے معاملے کو قوم پسندانہ طور پر استعمال کیا۔ 1993ء سے ہنگری کے ہمسایہ ممالک میں مقیم ہنگیرین اقلیتوں کو نسلی اور قومی بنیادوں پر ہنگری کی شہریت دیا جانا بھی ایک سیاسی چال ثابت ہوا اور اس دوران اس ملک میں بائیں بازو کے لبرل سیاستدانوں کی طرف سے کی گئی تنقید کو قطعی نظر انداز کر دیا گیا۔
جیسا کہ بلقان کے خطے میں عام ہے، بلغاریہ میں بھی اکثر لوگوں کے پاس ایسی دستاویزات نہیں ہوتیں، جن کی مدد سے وہ قومی یا نسلی طور پر اپنے بلغارین ہونے کو ثابت کر سکیں۔ بلغاریہ کی بیرون ملک آباد اقلیتیوں کے پاس محض ’بلغارین شعور‘ ہی ہوتا ہے۔ لیکن اس لحاظ سے تو شمالی مقدونیہ کا ہر شہری یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ وہ بلغارین نسل یا قومیت سے تعلق رکھتا ہے۔
بلغاریہ کے قوم پرست تو ویسے بھی یہ کہتے ہیں کہ مقدونیہ کے عوام بلغاریہ ہی کا حصہ ہیں۔ ایسے میں جب ایسے غیر ملکیوں کو بلغاریہ کا پاسپورٹ ملتا ہے، تو وہ پہلے بلغاریہ اور پھر یورپی یونین میں مزید مغرب کی طرف جانا شروع کر دیتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے پورے شینگن زون میں بغیر ویزے کے آزادانہ آمد و رفت اور کام کرنے کے مواقع۔
یورو کے بینک نوٹ کی تیاری میں کپاس بنیادی مواد ہوتا ہے۔ یہ روایتی کاغذ کی نسبت نوٹ کی مضبوطی میں بہتر کردار ادا کرتا ہے۔ اگر کپاس سے بنا نوٹ غلطی سے لانڈری مشین میں چلا جائے تو یہ کاغذ سے بنے نوٹ کے مقابلے میں دیر پا ثابت ہوتا ہے۔
بلغاریہ میں اس بات کے تعین کا کوئی واضح ضابطہ موجود ہی نہیں کہ مقامی شہریت کی درخواست دینے والے کسی فرد کی شخصیت میں ’بلغارین شعور‘ کی تشخیص کیسے کی جائے۔ یہ فیصلہ اکثر سرکاری اہلکاروں کی ذاتی صوابدید اور اندازوں کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ یہی بات ایک غیر قانونی کاروبار کے پھلنے پھولنے کی وجہ بن رہی ہے۔
یعنی آپ پانچ ہزار یورو تک رقم ادا کر کے بلغاریہ کا پاسپورٹ خرید سکتے ہیں۔ یہ حقائق 2018ء میں منظر عام پر آئے اور اس مجرمانہ کارروائی میں بلغاریہ کے قوم پسندوں کی جماعت کے ارکان بھی ملوث پائے گئے تھے۔ ساتھ ہی انہی ’پاسپورٹوں کی تقسیم اور فروخت‘ کو اقتصادی سرمایہ کاری کے ذرائع کے طور پر بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔
یورپی یونین کے رکن ممالک میں سے جن ریاستوں میں گولڈن ویزے کی بات کی جاتی ہے، وہاں یہی بات سرمایہ کاری سے بھی جڑی ہوئی ہے۔ اس سلسلے میں یورپی کمیشن کی طرف سے بلغاریہ کے علاوہ قبرص اور مالٹا پر بھی کھل کر تنقید کی جا چکی ہے۔ اس طرح کوئی بھی غیر ملکی، جو کہ کوئی مطلوب مجرم بھی ہو سکتا ہے، ایک بڑی رقم ادا کر کے یا سرمایہ کاری کی ضمانت دے کر ان ممالک کی شہریت یا وہاں مستقل رہائش کا اجازت نامہ حاصل کر سکتا ہے۔
موبائل فون سروسز فراہم کرنے والے دنیا کے اس دوسرے بڑے ادارے کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ برطانیہ کو الوداع کہہ دینا خارج از امکان نہیں ہے اور ممکنہ طور پر یہ ادارہ اپنے ہیڈکوارٹرز جرمن شہر ڈسلڈورف میں منتقل کر دے گا۔ جرمن علاقے رائن لینڈ میں ووڈافون کے نئے کیمپس میں پانچ ہزار ملازمین کی گنجائش ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ جرمنی اس ادارے کی سب سے بڑی منڈی بھی ہے۔
اسی تناظر میں یورپی یونین کی انصاف سے متعلقہ امور کی نگران خاتون کمشنر ویرا ژُورووا تو کئی ایسے روسی شہریوں کی مثالیں بھی دے چکی ہیں، جو اس طرح یورپی یونین کے رکن ممالک میں رہائشی اجازت نامے حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔
مسئلہ صرف سلامتی کا نہیں ہے۔ اس کام کے پیچھے ایک ایسی منڈی ہے، جہاں شہریت اور شہری حقوق بیچے اور خریدے جاتے ہیں۔ یہ صورت حال ایسے چھوٹے ممالک کی حکومتوں کے مابین ایک بے ہنگم مقابلے کی صورت اختیار کر چکی ہے، جو غیر ملکیوں کو اپنے ہاں کی شہریت دے کر مقامی سطح پر انہی نئے شہریوں کے ہاتھوں مقامی سرکایہ کاری کے خواہش مند ہیں۔
یہ شہریت ایک بڑی رقم ادا کر کے حاصل کی جا سکتی ہے اور حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ اس عمل کے لیے درخواست دہندہ کا ذاتی طور پر اس متعلقہ ملک میں موجود ہونا بھی ضروری نہیں ہوتا، جس کی شہریت وہ لے رہا ہوتا ہے۔ یوں مستقبل میں کوئی بھی ایسا غیر ملکی دنیا کے کسی ایسے جزیرے سے ہی اپنے لیے یورپی یونین کی شہریت کی درخواست دے سکتا ہے، جہاں وہ اپنا کالا دھن چھپائے بیٹھا ہو یا کم ٹیکسوں کی وجہ سے مقیم ہو۔
بلیو کارڈ اسکیم کو 2012ء میں متعارف کرایا گیا تھا۔ بلیو کارڈ لینے والے کے لیے یورپی یونین کے کسی بھی ملک میں کام کرنے کے مواقع کھل جاتے ہیں۔ اس کے لیے یورپی یونین کے باہر کا کوئی بھی شخص درخواست دے سکتا ہے۔ کسی جرمن یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے آنے والے طالب علم بھی تعلیم مکمل کرنے کے بعد 18 ماہ تک جرمنی میں رہ کر کام کی تلاش کر سکتے ہیں۔
اس رجحان پر قابو پانے کے دو طریقے ہو سکتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ یورپی یونین کے رکن ممالک میں مقامی شہریت دیے جانے کے یورپی سطح پر یکساں نطام اور شرائط متعارف کرائے جائیں، جن پر عمل درآمد اس بلاک کی رکن ہر ریاست کے لیے لازمی ہو۔ لیکن یہ سیاسی کامیابی یورپی یونین کے کئی ممالک میں قوم پرست قوتوں کی مضبوطی کے دور میں مشکل نظر آتی ہے۔
دوسرا حل یہ ہو سکتا ہے کہ یورپی یونین میں مقامی اور یورپی سطح کی شہریت کے مابین تفریق کا نظام متعارف کرا دیا جائے، یعنی پہلے مثلاﹰ کوئی غیر ملکی بلغاریہ، قبرص یا مالٹا وغیر کی مقامی شہریت حاصل کرے اور پھر دوسرے مرحلے میں دیگر شرائط پوری کرنے پر یورپی یونین کی شہریت کے دستاویزی حقوق حاصل کرے۔
اگر کوئی یہ کہے کہ ایسا کرنا تو یورپی یونین کے معاہدوں کی خلاف ورزی ہو گا، تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر یورپی پاسپورٹوں کا یہ کاروبار بند نہ ہوا، جو کہ سہولتوں اور مراعات کا غلط استعمال ہے، تو پھر، چاہے کسی کو پسند آئے یا نہ آئے، یورپی یونین میں پاسپورٹوں کی سطح پر بھی ایک متنوع نظام دیکھنے میں آ سکتا ہے۔