کراچی (جیوڈیسک) سٹی کورٹ کے مال خانے سے لاکھوں روپے اور طلائی زیورات چوری ہوگئے، ملزمان سے برآمد شدہ لاکھوں روپے موبائل فون، طلائی زیورات کی کیس پراپرٹی چوری ہونے کے باعث درجنوں ملزمان کو فائدہ پہنچے گا،مال خانے سے متصل تھانہ بے خبر رہا، چور دیوار توڑ کر مال خانے میں داخل ہوئے۔
تفصیلات کے مطابق مال خانے ضلع شرقی کے انچارج اسسٹنٹ سب انسپکٹر غلامصطفی نے تھانہ سٹی کورٹ میں رپورٹ درج کرائی ہے اور موقف اختیار کیا ہے کہ گزشتہ روز اس نے چاروں اضلاع کے مال خانے انچارجز کے موجودگی میں مال خانے کو سیل کیا تھا۔
بدھ کو معمول کے مطابق صبح جب مال خانے کھولا تو ضلع شرقی کی تمام کیس پراپرٹی بکھری پڑی تھی، ریکارڈ چیک کرنے پر تھانہ سعود آباد، عزیز بھٹی کی کیس پراپرٹی، 6 لاکھ روپے اوردیگر تھانوں کی لاکھوں روپے مالیت کے طلائی زیورات، موبائل فون اور سامان غائب تھا، ملزمان مال خانے کی دیوار توڑ کر داخل ہوئے اور مذکورہ کیس پراپرٹی چور ی کرکے فرار ہوگئے۔
انچارج نے مقدمہ نامعلوم ملزمان کے خلاف درج کرایا ہے، حیرت انگیز بات یہ ہے تھانہ سٹی کورٹ مال خانے سے متصل ہے، سٹی کورٹ کے تمام گیٹ ججزکے جانے کے بعد بند کر دیے جاتے ہیں، ایک گیٹ تھانے کیلیے کھلا رہتا ہے، اس گیٹ پر تھانہ سٹی کورٹ کے اہلکار ڈیوٹی دیتے ہیں۔
عدالتیں بند ہونے کے بعد کوئی بھی شخص سٹی کورٹ میں داخل نہیں ہوسکتا، اس کے باوجود اتنی دیدہ دلیری کا مظاہرہ ہوا جس سے تمام ججز، وکلا حیرت زدہ ہیں، کیس پراپرٹی چوری کا مقدمہ درج ہونے کے بعد سرکاری وکیل سید شمیم احمد کی سربراہی میں ہنگامی اجلاس ہوا جس میں مال خانے میں چوری پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ مقدمات چلانے کیلیے ملزمان سے برآمد شدہ مال کو عدالت میں بطور کیس پراپرٹی پیش کرنا لازمی ہے، ڈکیتی، اسٹریٹ کرائم کے مقدمات میں ملزمان کو سزا ہی کیس پراپرٹی کی موجودگی میں ہوتی ہے، ملزمان کو اس سے فائدہ ہوگا۔
سرکاری وکلا کو کیس چلانے میں شدید مشکلات کا سامنا ہوگا اور ملزمان باآسانی رہا ہوسکتے ہیں، مدعی مقدمات کو ان کا مال واپس کرنا بھی ایک مسئلہ ہوگا، وکلا نے مال خانے میں چوری کو بڑی سازش قرار دیا اور پولیس کو اس سازش کا حصہ قرار دیا ہے، پولیس کی ملی بھگت کے بغیر اتنی بڑی واردات نہیں ہوسکتی، بلکہ مال خانے کا عملہ بھی اس میں ملوث ہوسکتا ہے۔